ہائی وے پر ایک درخت

Shayari By

گردن میں پھندا سخت ہوتا جا رہا تھا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے کے لئے زور لگانے لگی تھیں۔ منھ کا لعاب جھاگ بن کر ہونٹوں کے کونوں پر جمنے لگا تھا۔ موت اور زندگی کے درمیان چند لمحوں کافاصلہ اب باقی رہ گیا تھا۔ دم نکلنے سے پہلے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس نے شاخ کو دیکھا، جس میں وہ لٹکا دیا گیا تھا۔ وہ ہرابھرا نیا نیا جوان ہوا ایک درخت تھا۔ سڈول تنا، گھنی گھنی اجلی اجلی پتیاں، لچکیلی اور شاداب شاخیں۔
جس وقت اس کا بھاری بھرکم جسم شاخ میں لٹکایا گیا تھا اور اس کے بوجھ سے شاخ ہوا میں اوپر نیچے جھولی تھی اور اس کا لٹکا ہوا جسم رسی کے سہارے اوپر نیچے ہوا تھا اور تلوے ایک بار زمین سے چھوگیے تھے تو اس کے کانوں میں درخت کی شاخ سے ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز سنائی دی تھی۔

جن قزاقوں نے اسے لٹکایا تھا وہ سب اپنے تنومند اور مچلتےہوئے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر اپنے راستے پر ہو لیے تھے۔ اس نے ابلتی ہوئی آنکھوں سے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی گرد کو ایک پل کے لیے دیکھا تھا اور پھر اسے لچکتی ہوئی شاخ کی چرچراہٹ نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جن میں ابھی بصارت کی آخری کرن باقی تھی، اس جھولتی ہوئی شاخ کو دیکھا تھا۔ شاخ بہت موٹی نہ تھی اور اس کی لچک سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کے بوجھ کے پہلے جھٹکے پر کچھ چوٹ کھا گئی ہو۔ وہ اس طرح جھول رہی تھی جیسے اب ٹوٹی اور تب ٹوٹی۔ لیکن دماغ کے کسی گوشے میں وہ اس بات سے بھی باخبر تھا کہ چوٹ کھائی ہوئی شاخ نرم تھی، گیلی تھی۔ اس کی تازگی کے سبب شاخ کے سارے ریشے، ریشم کے دھاگوں کی طرح آپس میں مل کر مضبوط ہو چکے تھے۔ اگر وہ شاخ سوکھی ہوتی تو ریشے جگہ چھوڑ دیتے، لچکتے نہیں ٹوٹ جاتے اور حقیقت صرف اتنی تھی کہ شاخ صرف اس کے جسم کے ساتھ جھول رہی تھی۔
وہ سب اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر ہائی وے پر فرار ہو چکے تھے اور درخت سے کچھ ہی فیصلے پر حد نظر تک لیٹی ہوئی پکی چمکیلی اور سیاہ ہائی وے سنسان پڑی تھی۔ [...]

شاہی رقاصہ

Shayari By

شاہی دربار کی حسین ترین رقاصہ اپنے آراستہ و پیراستہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک لفظ کہے بغیر کنیزوں کی مدد سے اپنی سیر کامخصوص لباس اتارنے لگی اور چند منٹ بعد اس کام سے فراغت پاکر مخملیں کرسی میں دھنس گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ مغموم و ملول نظر آ رہی تھی۔۔۔ دونوں کنیزیں ایک گوشے میں کھڑی حیرت سے ایک دوسری کو دیکھ رہی تھیں۔
’’تم چلی جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں کمرے میں نہ آنا۔۔۔ کوئی اور بھی کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رقاصہ نے جھنجھلاکر کہا۔ کنیزیں مبہوت و ششدر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔

ان کے چلے جانے کے بعد رقاصہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سر رکھ کر اپنے خیالات میں کھوگئی۔ دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا، سامنے دیکھا اور اس کی نگاہیں سنگ مرمر کی میز پر رکھے ہوئے ایک سفید مجسمہ پر جم گئیں۔ یہ ایک نہایت حسین و جمیل مجسمہ تھا۔ جس کے ساتھ، ایک بھیانک سیاہ سانپ لپٹا ہواتھا۔ رقاصہ ٹکٹکی باندھ کر اس مجسمے کو دیکھنے لگی اور خیالات کا وہ ہجوم جو کئی دن سے اس کے ذہن میں منڈلا رہا تھا اب سمندر کی طوفانی موجیں بن بن کر اس کے دل و دماغ میں بےقرار ہو گیا۔ وہ مضطرب ہوکر کرسی سے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔
وہ دربار کی سب سے بری رقاصہ تھی۔ اسے دنیا کی ہر نعمت حاصل تھی، ہر قسم کی آسایش میسر تھی، اس کی نئی پوشاکوں پر، اس کے گلے کے ہاروں پر اور اس کے خوبصورت زیورات پر ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ محل اور محل کے باہر اس کی اتنی قدر ومنزلت تھی کہ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ بادشاہ اس پر خاص مہربان تھا۔ مگر ان تمام چیزوں کے باوجود چند دن سے اس کی روح میں ایک خلش سی، اس کے دماغ میں ایک اضطراب سا اور اس کے دل میں ایک بے قراری سی موجزن تھی۔ [...]

گرم لہو میں غلطاں

Shayari By

ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھادیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار پونچھ رہی تھیں اور سامنے رکھے بڑے سے طوق کے ڈھانچے کو برابر نہارے جارہی تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا سونا دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ پھر انہوں نے پاس رکھے ہوئے خمیدہ نے اور مٹی کے پیندے والے حقے کو جھکا کر بانس کی سرمئی نے موٹے موٹے لرزتے ہونٹوں میں دبالی اور ایک پھسپھسا کش لیا اور میرا سارا حافظہ جھنجھنا گیا۔
شادی کابھرا پرا گھر مہمان عورتوں اور ندیدے بچوں کی پرشور آوازکے تھپیڑوں سے ہل رہا تھا اور میں ڈولتا ہوا ان کے قریب سے گزرا جارہا تھا۔ میں نے جاتے جاتے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا جیسے مارکین کے ٹکڑے پر بجھتے کوئلوں کا عکس لپک گیا اور انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا،’’تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘اور میری آنکھوں کے سامنے یادوں کے ورق اڑنے لگے۔ ابھی نہ ہندوستان آزاد ہوا تھا اور نہ پاکستان پیدا ہوا تھا۔ نہ زمینداری ختم ہوئی تھی اور نہ آم کی فصلیں روزی کا وسیلہ بنی تھیں۔ سب کچھ اسی طرح موجود تھا جس طرح صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ انگریز خدا اپنے گدھوں کو سونے کے توبڑوں میں خشکہ نہیں بریانی کھلا رہا تھا اور اس سال آم کی فصل اس طرح ٹوٹ کر آئی تھی کہ گلی کوچے پھلوں سے سڑنے لگے تھے۔ تخمی باغوں کے باغبانوں کی لین ڈوری پھاٹک سے ڈیوڑھی تک سروں پر چیندہ آموں کے جھوے لادے کھڑی رہتی۔ تیسرے درجے کے مسافروں کی طرح انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ ہاں قلعی باغوں کے باغبان فرسٹ کلاس کے مسافروں کی طرح فضیلت سے نوازے جاتے اور ان کے آم ہاتھ کے ہاتھ گنالیے جاتے۔

دور تک پھیلے ہوئے اونچی چھتوں اور موٹے ستونوں والے لق ودق دالانوں میں کچے پکے آموں کی جازم بچھی رہتی۔ بوڑھی بدصورت اور کٹکھنی عورتیں ہاتھوں میں لمبی لمبی لکڑیاں لیے ندیدے لڑکوں اور ہتھ لکی عورتوں کو گالیاں اور کوسنے بانٹا کرتیں۔ اس روز اندر سے باہر تک جیسے ساری فضا بدلی ہوئی تھی، دھلی دھلائی سی لگ رہی تھی۔ ڈیوڑھی میں نہ جھوے، نہ کدالیں، نہ کھرپے اور نہ وہ مانوس بھناٹا، صاف صفیلا آنگن، اندرونی دالان کے چوکے اور گاؤ تکیے صندوق سے نکلے، تخت پوش اور غلاف پہنے میاں پوت بنے بیٹھے تھے۔ ماہی پشت والے نواڑی پلنگوں پر آدھے آدھے سوتی قالین پڑے تھے۔ پان خوروں کے منہ کی طرح لال لال اگالدان انگریزوں کے منھ کی طرح صاف صاف رکھے تھے۔ مرادآبادی پاندان اور لوٹے اور سرپوش سب اجلے اجلے کپڑے پہنے سلیقے سے اپنی جگہ کھڑے بیٹھے تھے۔ چھت میں جھولتے بھاری پنکھے تک کو دھلا جوڑا پہنادیا گیا تھا۔
بالکل عید بقرعید کا سا ماحول تھا، لیکن بقرعید کا سا شور نہ ہنگامہ۔ کمرے کے پانچوں دروازوں پر پڑے ہوئے خس کے موٹے موٹے بدوضع پردوں کے نیچے پانی کے چھوٹے چھوٹے سے تھالے بن گیے تھے۔ اندر چھت کے دوہرے پنکھوں کی اکلوتی رسی لوہے کی گراری پر تیز تیز چل رہی تھی جیسے چڑیوں کے کئی جوڑے ایک ساتھ چوں چوں کر رہے ہوں۔ میں نے ذرا جھجک کر پردا اٹھایا تو محسوس ہوا جیسے یہاں سے وہاں تک سارا کمرہ ان کی روشنی سے جھم جھمارہا ہے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا جیسے امام باڑے میں رکھا ہوا چاندی کا تعزیہ دیکھا جاتا ہے جیسے دسہرے کی جھانکی دیکھی جاتی ہے۔ [...]

ایک حلفیہ بیان

Shayari By

میں مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ سچ سچ بیان کروں گا۔اس سچائی میں آپ کو شریک کرلوں گا جو صرف سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں۔


یہ ایک رات کی بات ہے۔
یہ ایک ایسی رات کی بات ہے جب میں اکیلا اپنے بستر پر لیٹا تھا اور دیوا پر ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ روشن دان کھلا تھا۔ بارش کاموسم تھا۔ ٹیوب لائٹ پر بہت سےچھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے۔ یقینا یہ برساتی کیڑے تھے۔ تب ہی میرے سر کے اوپر سے مسہری اور کمرے کی چھت کے درمیان فضا میں بھنبھنا ہٹ کی آواز کے ساتھ کسی قدر بڑے کیڑے کے اُڑنے کی آواز آئی اور پھر مسہری کے برابر فرش پر پٹ سے کسی کے گرنے کی آواز۔۔۔ یہ آواز اتنی واضح تھی کہ میرا دھیان اس کی طرف چلا گیا۔ [...]

ایک پھول، ایک تتلی

Shayari By

بنجر زمین پر پھوار پڑے یا موسلا دھار بارش ہو، جب کونپل ہی نہیں پھوٹے گی تو پھر کلی کا چٹکنا معدوم۔ رضیہ چچی بس ایسی ہی ایک بنجر سی زمین تھیں۔
سوکھی ساکھی دھرتی کی طرح چچا کے قدموں کے تلے بچھی رہتیں۔ کٹے ہوئے کھیت کے سوکھے تھنٹھ بھی ہوتے تو کوئی دیکھ سمجھ کر قدم رکھتا کہ مبادا اپنا پیر زخمی نہ ہوجائے یا پھر زندگی کی رسمساہٹ ہی رہے۔ ننھے ننھے ہرے ہرے پودے ہرا ول کی طرح سنہھ تانے کھڑے ہوں تو پھر زندگی کو کچل دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس لیے اٹھنے والے قدم خود ہی پیچھے ہٹ سکتے تھے۔ لیکن رضیہ چچی تو بس سوکھا ساکھا جنگل تھیں۔ چوب خشک صحرا تھیں۔ قافلہ آگ ہی لگاتا تھا نہ روا نہ ہی ہوتا تھا۔ محرومیاں نیکی کا روپ دھار لیتی ہیں تو نیکیاں قابل رحم حد تک مجبوریوں کا پرتو معلوم ہوتی ہیں اور جب یہی مرحومیاں گناہ بن کر چھاتی ہیں تو بیچاری نیکی کو سر چھپانے کو آسرا تک نہیں رہتا۔

رضیہ چچی کی محرومیاں بس نیکی بن کر رہ گئی تھیں۔ ایسی نیکی جو خود نیکی سے خوف کھائے اور خاندان سارا اس نیکی پر مرمٹا تھا۔ خدمت، خدمت۔۔۔ خدمت۔۔۔ اپنے سے چھوٹوں کی خدمت کر رہی ہیں، برابر والوں کی خدمت کر رہی ہیں، بزرگ تو بزرگ ہی ٹھہرے۔۔۔ نہ ستائش کی پرو انہ صلے کی طلب۔ نیکی تقسیم ہورہی تھی۔ اب جس کے دامن میں جتنا گنجائش رہے سمیٹ لے۔ جس کی جھولی جتنی وسیع ہو بھرے اور چچا میاں نے سب سے زیادہ سمیٹا، سب سے زیادہ بھر لیا۔ رضیہ چچی کو چچا میاں کی جھولی بھر کر بڑی خوشی بھی تو ہوتی تھی۔ بڑا آنندبھی تو ملتا تھا۔۔۔ لیکن بقدر ہمت ہر ایک نے رضیہ چچی سے کچھ نہ کچھ لیا اور وہ بھی کس طرح۔ خود انھیں کچھ دینے کے بہانے۔
اور رضیہ چچی دنیا بھر کا دکھ درد سینے میں چھپائے بس نیکی بنی رہیں۔۔۔ اور دنیا کے ٹھاٹھیں مارتے بیکراں سمندر کی موجوں پر بس ڈولتی رہیں۔ غرق ہونے کا ڈر نہیں پار اترنے کی فکر نہیں۔ [...]

استاد شمو خاں

Shayari By

(۱)
استاد شمو خاں پہلوان کی اب تو خوب چین سے گزرتی تھی۔ کئی ایک اکھاڑے مار لینے سے مان ہو گیا تھا۔ کام بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں بیوی سلمہ بتیت ہیں اور صرف دو بچے تھے۔ ورق کوٹنے سے یافت کافی ہو جاتی تھی۔ یار دوست تھے، فکر پاس نہ پھٹکتا تھا اور اس کے علاوہ بدھو، درگی چماری کی لڑکی، عیش کرنےکو اللہ میاں نے پھوکٹ میں دے رکھی تھی۔ وہ کم عمر اور خوبصورت تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا ہوا جسم، اس کاگندمی رنگ جس میں ایک ہیرے کی سی دمک تھی، اس کی بڑی بڑی مست آنکھیں، غرض کہ اس کی ہر چیز موزوں اور لاجواب تھی۔ انسان اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے؟ تمول اور اوپر سے یہ مفت کا عیش۔ شموخاں روز ایک ہزار ڈنڈ بیٹھک نکالتے اور خوب گھی پی پی کر دنبے کی طرح موٹے اور چکنے ہو گیے۔

لیکن ان کو ایک فکر برابر ستایا کرتا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے ہی شیخ نورالہی کرخندار رہتے تھے۔ ان کو استاد شموخاں کی طرح کبوتروں کی بڑے دھت تھی اور استاد سےان کی صید بندھی ہوئی تھی۔ شیخ نورالہی شمو خاں کو بڑھتا دیکھ کر دل ہی دل میں بہت جلتے تھے اور یہ جلن اس لیے اور بھی بڑھ گئی کہ استاد شمو خاں نے نہایت عمدہ اور تگڑے پٹھے تیار کرنے شروع کر دیے۔ جو حالانکہ محض نفتے پلکے ہی ہوتے تھے۔ لیکن بازی میں ہمیشہ شیخ جی کی شیرازی اور چپ کبوتروں کے جھلڑ کو نیچا ہی دکھاتے اور ہر لڑائی میں شیخ جی کے ایک آدھ پٹھے کو ضرور کھیر چپیک لاتے۔ پہلے تو چونکہ شروع شروع کامعاملہ تھا۔ شمو خاں نے ایک آدھ بار شیخ جی کے کبوتر واپس کر دیے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو حد سے ہی گزرا جا رہا ہے تو دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اب چوک پر بکیں گے۔ یہ سن کر شیخ جی اور بھی آگ بگولہ ہوئے۔ جب تک یہ معاملہ آپس ہی میں تھا تو اتنی برائی کی بات نہ تھی۔ لیکن کبوتروں کا چوک پر جانا نہ صرف شیخ جی کی شان کے خلاف تھا بلکہ اس سے ان کے نام پر بٹہ آتا۔ انہوں نے شمو خاں کو روپیہ روپیہ دو دو روپیہ اپنے کبوتروں کے دینے کو کہا۔ لیکن شمو خاں بولے،
’’میاں مجاز تو درست ہیں؟ ہوش کی آو۔ اب تو قبوتر چوک سے ورے نہیں ملتے۔ لمبے بنو۔۔۔‘‘ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close