(۱) استاد شمو خاں پہلوان کی اب تو خوب چین سے گزرتی تھی۔ کئی ایک اکھاڑے مار لینے سے مان ہو گیا تھا۔ کام بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں بیوی سلمہ بتیت ہیں اور صرف دو بچے تھے۔ ورق کوٹنے سے یافت کافی ہو جاتی تھی۔ یار دوست تھے، فکر پاس نہ پھٹکتا تھا اور اس کے علاوہ بدھو، درگی چماری کی لڑکی، عیش کرنےکو اللہ میاں نے پھوکٹ میں دے رکھی تھی۔ وہ کم عمر اور خوبصورت تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا ہوا جسم، اس کاگندمی رنگ جس میں ایک ہیرے کی سی دمک تھی، اس کی بڑی بڑی مست آنکھیں، غرض کہ اس کی ہر چیز موزوں اور لاجواب تھی۔ انسان اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے؟ تمول اور اوپر سے یہ مفت کا عیش۔ شموخاں روز ایک ہزار ڈنڈ بیٹھک نکالتے اور خوب گھی پی پی کر دنبے کی طرح موٹے اور چکنے ہو گیے۔ لیکن ان کو ایک فکر برابر ستایا کرتا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے ہی شیخ نورالہی کرخندار رہتے تھے۔ ان کو استاد شموخاں کی طرح کبوتروں کی بڑے دھت تھی اور استاد سےان کی صید بندھی ہوئی تھی۔ شیخ نورالہی شمو خاں کو بڑھتا دیکھ کر دل ہی دل میں بہت جلتے تھے اور یہ جلن اس لیے اور بھی بڑھ گئی کہ استاد شمو خاں نے نہایت عمدہ اور تگڑے پٹھے تیار کرنے شروع کر دیے۔ جو حالانکہ محض نفتے پلکے ہی ہوتے تھے۔ لیکن بازی میں ہمیشہ شیخ جی کی شیرازی اور چپ کبوتروں کے جھلڑ کو نیچا ہی دکھاتے اور ہر لڑائی میں شیخ جی کے ایک آدھ پٹھے کو ضرور کھیر چپیک لاتے۔ پہلے تو چونکہ شروع شروع کامعاملہ تھا۔ شمو خاں نے ایک آدھ بار شیخ جی کے کبوتر واپس کر دیے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو حد سے ہی گزرا جا رہا ہے تو دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اب چوک پر بکیں گے۔ یہ سن کر شیخ جی اور بھی آگ بگولہ ہوئے۔ جب تک یہ معاملہ آپس ہی میں تھا تو اتنی برائی کی بات نہ تھی۔ لیکن کبوتروں کا چوک پر جانا نہ صرف شیخ جی کی شان کے خلاف تھا بلکہ اس سے ان کے نام پر بٹہ آتا۔ انہوں نے شمو خاں کو روپیہ روپیہ دو دو روپیہ اپنے کبوتروں کے دینے کو کہا۔ لیکن شمو خاں بولے، ’’میاں مجاز تو درست ہیں؟ ہوش کی آو۔ اب تو قبوتر چوک سے ورے نہیں ملتے۔ لمبے بنو۔۔۔‘‘
[...]