لکھنو کے سر پر اختر نگر کا تاج رکھا تھا جس کے ہیرے کمہلانے اور موتی سنولانے لگے تھے۔ آہستہ خرام گومتی امام باڑہ آصفی کے چرن چھوکر آگے بڑھی تو ریزیڈنسی کے سامنے جیسے ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی۔ موجوں نے بے قراری سےسر اٹھااٹھاکر دیکھا لیکن پہچاننے سے عاجز رہیں کہ ریزیڈنسی نواب ریزیڈنٹ بہادر کی کوٹھی کے بجائے انگریزوں کی چھاونی معلوم ہو رہی تھی۔ تمام برجوں اور فرازوں پر توپیں چڑھیں ہوئی تھیں۔ راؤٹیوں اور گمزیوں کا پورا جنگل لہلہا رہا تھا۔ حصا رپر انگریز سواروں اور پیدلوں کا ہجوم تھا۔ دونوں پھاٹکوں کے دونوں دروں پربندوقیں تنی ہوئی تھیں۔ پھر راہ چلتوں نے دیکھا کہ قیصر باغ کی طرف سے آنے والی سڑک حیدری پلٹن کے سواروں سے جگمگانے لگی جن کی وردیاں دولہا کے لباسوں کی طرح بھڑکدار اور ہتھیار دولہن کے زیوروں کی طرح چمکدار تھے۔ ریزیڈنسی کے جنوبی پھاٹک پر چھلبل کرتے سواروں کے پردے سے وزیر اعظم نواب علی نقی خاں اور وکیل السلطنت موتمن الدولہ کے بوچے برآمدہوئے جن کے درمیان دس پندرہ سواروں کے اردل کا حجاب تھا اور سامنے انگریز سپاہیوں کے ہتھیاروں کی دیواریں کھڑی تھیں۔ دیر کے انتظار کے بعد افسرالتشریفات نے آکر ان سواریوں سے اتارا اور اپنے اردل کے حلقے میں پیادہ پیش دامان تک لے گیا جس کی سیڑھیوں پر سر سے پاؤں تک اپچی بنےہوئے گارڈز کا دستہ کھڑا تھاجیسے زینت کے لیے مجسمے نصب کردیے گیے ہوں۔ کشتی دار تکیوں کی آبنوسی کرسی پر وہ دونوں پڑے سوکھتے رہے۔ اپنے ذاتی محافظ رسالے کے متعلق سوچتے رہے جو پھاٹک پر روک لیا گیا تھا اور مغربی دروازے سے داخل ہونے والی توپوں کی گڑگڑاہٹ سنتے رہے۔ پھر فوجی افسروں کے جھرمٹ میں وہ ریزیڈنٹ کی اسٹڈی میں باریاب ہوئے۔ ریزیڈنٹ بہادر اسی طرح کرسی پر پڑے رہے۔ ابرو کے اشارے پر وزیر اعظم اور وکیل السلطنت اس طرح بیٹھ گیے جیسے وہ ریزیڈنٹ کی اسٹڈی میں نہیں واجد علی شاہ کے دربار میں کرسی نشینی سے سرفراز کیے گیے ہوں۔ تامل کے بعد صاحب بہادر نے اپنے پہلو میں کھڑے ہوئے میر منشی صلابت علی کو سرکی جنبش سے اشارہ کیا اورمیر منشی ایک خریطہ کھول کر پڑھنے لگا اور جب اس کے منھ سے یہ فقرہ ادا ہوا، ’’کمپنی بہادر نے پچاس لاکھ سالانہ کے وظیفے کے عوض میں سلطنت کا الحاق کرلیا۔‘‘ تو وکیل السلطنت کہ سپاہی بچہ تھا ہرچند کہ سپہ گری کے سبق بھول چکا تھا تاہم نیزے کی طرح تن کر کھڑا ہوگیا۔ ’’یہ ناممکن ہے۔‘‘
[...]