جی میاں کا قد بہت ہی چھوٹا تھا ۔ رہتے بھی تھے وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔ ان کے مختصر قد کی وجہ سے بہت دنوں تک چھوٹے چھوٹے بچے ان کے ساتھ مزے سے کھیلتے رہے ۔ وقت کے ساتھ وہ بچے بڑے ہو گئے تو بچوں کی دوسری کھیپ ان کی دوست بن گئی ۔ پھر وہ بھی بڑے ہو گئے مگر جی میاں جوں کے توں رہے۔ ان کے لئے جیسے وقت رک سا گیا تھا۔ شریف لوگ انھیں دیکھتے اور مسکرا کر رہ جاتے شریر بچے اپنی شرارتوں سے باز نہ آتے، ان کا مذاق اڑاتے۔ جی میاں کبھی تو اس مذاق کو بھی مذاق میں اڑاتے اور اکثر مزہ لیتے۔ ان کی دلچسپ باتیں اور انوکھی ادا میں دیکھ کر لوگ لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ قد ان کا بھلے ہی چھوٹا سا تھا مگر دماغ بڑا پایا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا گھر یعنی جی میاں کا سر اچھا خاصہ بڑا تھا۔ ذرا سے بدن پر مٹکے جیسا سر دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سب کو ہنسانے والے جی میاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اچانک ان کے والد چل بسے۔ ابھی ان کے آنسو تھمے بھی نہ تھے کہ ان کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جی میاں اس بھری پری دنیا میں اکیلے رہ گئے ۔ ماں باپ نے اپنے جیتے جی کبھی انھیں کسی پریشانی کا منہ نہ دیکھنے دیا۔ والدین کے انتقال کے بعد جی میاں کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہونے لگا۔ جی میاں کے والد درزی تھے۔ بیٹے کو یہ کام آتا نہ تھا۔ جب پریشانیاں بڑھنے لگیں تو ایک دن جی میاں نے اپنے پڑوسی جمّن میاں سے کہا، ’’چچا ! اب تو گھر میں کچھ بھی نہیں بچا۔ بابا جو روپیہ پیسہ چھوڑ کر گئے تھے سب اٹھ گیا۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کچھ محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کریں۔ ہو سکے تو ہمیں کوئی اچھا سا کام دلا دو۔ شیخ جمّن نے کہا تم کام کرو گے؟‘ اور پھر وہ خوب ہنسا۔ لگاتار دو دنوں تک ہنستا ہی رہا۔ اب تک لوگ جی میاں کے عجیب وغریب ڈیل ڈول کو دیکھ ہنستے مسکراتے تھے مگر جی میاں کا دل ہی کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے کسی کی ہنسی کا بھی برا نہیں مانا مگر آج شیخ جمن کی ہنسی سے ان کے دل پر جیسے چھریاں چل گئیں۔ وہ جانتے تھے شیخ ان کے قد پر نہیں ان کی بے بسی پر ہنس رہا ہے۔
[...]