جی میاں کی کہانی

Shayari By

جی میاں کا قد بہت ہی چھوٹا تھا ۔ رہتے بھی تھے وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔ ان کے مختصر قد کی وجہ سے بہت دنوں تک چھوٹے چھوٹے بچے ان کے ساتھ مزے سے کھیلتے رہے ۔ وقت کے ساتھ وہ بچے بڑے ہو گئے تو بچوں کی دوسری کھیپ ان کی دوست بن گئی ۔ پھر وہ بھی بڑے ہو گئے مگر جی میاں جوں کے توں رہے۔ ان کے لئے جیسے وقت رک سا گیا تھا۔ شریف لوگ انھیں دیکھتے اور مسکرا کر رہ جاتے شریر بچے اپنی شرارتوں سے باز نہ آتے، ان کا مذاق اڑاتے۔ جی میاں کبھی تو اس مذاق کو بھی مذاق میں اڑاتے اور اکثر مزہ لیتے۔ ان کی دلچسپ باتیں اور انوکھی ادا میں دیکھ کر لوگ لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ قد ان کا بھلے ہی چھوٹا سا تھا مگر دماغ بڑا پایا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کا گھر یعنی جی میاں کا سر اچھا خاصہ بڑا تھا۔ ذرا سے بدن پر مٹکے جیسا سر دیکھ کر ہی دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی تھی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سب کو ہنسانے والے جی میاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اچانک ان کے والد چل بسے۔ ابھی ان کے آنسو تھمے بھی نہ تھے کہ ان کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جی میاں اس بھری پری دنیا میں اکیلے رہ گئے ۔ ماں باپ نے اپنے جیتے جی کبھی انھیں کسی پریشانی کا منہ نہ دیکھنے دیا۔

والدین کے انتقال کے بعد جی میاں کو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہونے لگا۔ جی میاں کے والد درزی تھے۔ بیٹے کو یہ کام آتا نہ تھا۔ جب پریشانیاں بڑھنے لگیں تو ایک دن جی میاں نے اپنے پڑوسی جمّن میاں سے کہا، ’’چچا ! اب تو گھر میں کچھ بھی نہیں بچا۔ بابا جو روپیہ پیسہ چھوڑ کر گئے تھے سب اٹھ گیا۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کچھ محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کریں۔ ہو سکے تو ہمیں کوئی اچھا سا کام دلا دو۔ شیخ جمّن نے کہا تم کام کرو گے؟‘ اور پھر وہ خوب ہنسا۔ لگاتار دو دنوں تک ہنستا ہی رہا۔
اب تک لوگ جی میاں کے عجیب وغریب ڈیل ڈول کو دیکھ ہنستے مسکراتے تھے مگر جی میاں کا دل ہی کچھ ایسا تھا کہ انھوں نے کسی کی ہنسی کا بھی برا نہیں مانا مگر آج شیخ جمن کی ہنسی سے ان کے دل پر جیسے چھریاں چل گئیں۔ وہ جانتے تھے شیخ ان کے قد پر نہیں ان کی بے بسی پر ہنس رہا ہے۔ [...]

آٹھواں عجوبہ

Shayari By

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں تھا اس سال اسکول شروع ہوا تو ہماری کلاس میں ایک نئے لڑکے کا داخلہ ہوا۔ نام تھا اسکا جنید۔ مجھے میرے دوست عامر نے بتایا کہ جنید کے والد ڈبلیو سی ایل میں ملازم ہیں اور ابھی ابھی ان کا بھوپال سے یہاں ٹرانسفر ہوا ہے۔
جنید بہت ہی دبلا پتلا تھا۔ لگتا تھا ذرا پھونک ماریں گے تو اڑ جائے گا۔ رنگ سانولا، آنکھیں نیپالی لوگوں جیسی چھوٹی چھوٹی سی، بال گھنگرالے، پتہ نہیں کیوں پہلی مرتبہ اسے دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں کسی چوہے کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ تمام طلباء سے ذرا الگ قسم کا تھا۔ اسکے دبلے پن کے باوجود ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کمزور ہے۔ کسی حد تک گٹھا ہوا بدن، چوہے جیسی چستی پھرتی اس میں تھی۔ ایک تو وہ اجنبی اور حلیہ سب سے جدا لڑکوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور ستانا شروع کر دیا۔

پہلے ہی دن جب وہ سیڑھوں کے پاس کھڑا تھا میری کلاس کے سارے لڑکے جو وہاں سے گزر رہے تھے، جاتے جاتے اس کے سر پر ٹپّو مارتے جارہے تھے۔ دوسرے دن چھٹی کے دوران وہ باہر نکلا تو اس کی پیٹھ پر کاغذ کا پرزہ چپکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’نیپالی چوہا‘۔
سبھی جانتے تھے کہ یہ حرکت اسامہ کی تھی۔ اسامہ ہماری کلاس کا سب سے زیادہ شریر بلکہ خطرناک طالب علم تھا۔ پوری کلاس پر اپنی دھاک جمائے ہوئے تھا۔ جہاں کسی نے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیا تو وہ اس کا دشمن بن جاتا تھا۔ ہم سب گھبرا گئے کہ اب اس نے نہ جانے کیوں جنید کو اپنا نشانہ بنالیا تھا۔ شاید نیا طالب علم دیکھ کر اسے نئی شرارت سوجھی تھی۔ اسامہ خوب موٹا تازہ تھا اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے بڑے سے تکئے میں خوب ٹھونس ٹھونس کر روئی بھر دی ہو۔ البتہ وقت پڑے تو تیزی سے بھا گنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ سومو پہلوانوں جیسا دکھائی دیتا تھا۔ طاقت تو کچھ زیادہ نہ تھی بسں اپنے موٹاپے اور شرارتوں کے بل پر سب کو ڈراتا رہتا تھا۔ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close