بنارس کا ٹھگ

Shayari By

(۱)
ریل کے اسٹیشن پر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی

پولیس کے تھانے کے باہر لکھا تھا۔۔۔ وارانسی
ہسپتال کے دروازے پر بورڈ لگا تھا۔۔۔ وارانسی [...]

شاہی رقاصہ

Shayari By

شاہی دربار کی حسین ترین رقاصہ اپنے آراستہ و پیراستہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک لفظ کہے بغیر کنیزوں کی مدد سے اپنی سیر کامخصوص لباس اتارنے لگی اور چند منٹ بعد اس کام سے فراغت پاکر مخملیں کرسی میں دھنس گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ مغموم و ملول نظر آ رہی تھی۔۔۔ دونوں کنیزیں ایک گوشے میں کھڑی حیرت سے ایک دوسری کو دیکھ رہی تھیں۔
’’تم چلی جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں کمرے میں نہ آنا۔۔۔ کوئی اور بھی کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رقاصہ نے جھنجھلاکر کہا۔ کنیزیں مبہوت و ششدر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔

ان کے چلے جانے کے بعد رقاصہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سر رکھ کر اپنے خیالات میں کھوگئی۔ دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا، سامنے دیکھا اور اس کی نگاہیں سنگ مرمر کی میز پر رکھے ہوئے ایک سفید مجسمہ پر جم گئیں۔ یہ ایک نہایت حسین و جمیل مجسمہ تھا۔ جس کے ساتھ، ایک بھیانک سیاہ سانپ لپٹا ہواتھا۔ رقاصہ ٹکٹکی باندھ کر اس مجسمے کو دیکھنے لگی اور خیالات کا وہ ہجوم جو کئی دن سے اس کے ذہن میں منڈلا رہا تھا اب سمندر کی طوفانی موجیں بن بن کر اس کے دل و دماغ میں بےقرار ہو گیا۔ وہ مضطرب ہوکر کرسی سے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔
وہ دربار کی سب سے بری رقاصہ تھی۔ اسے دنیا کی ہر نعمت حاصل تھی، ہر قسم کی آسایش میسر تھی، اس کی نئی پوشاکوں پر، اس کے گلے کے ہاروں پر اور اس کے خوبصورت زیورات پر ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ محل اور محل کے باہر اس کی اتنی قدر ومنزلت تھی کہ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ بادشاہ اس پر خاص مہربان تھا۔ مگر ان تمام چیزوں کے باوجود چند دن سے اس کی روح میں ایک خلش سی، اس کے دماغ میں ایک اضطراب سا اور اس کے دل میں ایک بے قراری سی موجزن تھی۔ [...]

باغی

Shayari By

آم کا کنج اور بڑے بابو، ان دونوں میں کوئی تعلق بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان باوجود ضرب المثل کثرت کے وحدت کاملک ہے۔ یہاں ہر چیز دوسری چیز سے رشتہ رکھتی ہے، یہ رشتہ ہر شخص کو نظر نہیں آتا، لیکن شاعر (یہاں اس لفظ کے وسیع معنی مراد ہیں) کی درد پرور نظر اسے دیکھتی ہے اور دوسروں کو دکھاتی ہے اور جو دیکھنے سے انکار کرے وہ ’’باغی‘‘ کہلاتا ہے۔ باغی کا مفہوم سمجھنے کے لیے تعزیرات ہند، عدالت اور کالا پانی کاخیال دل سے نکال دیجیے اور ذرا دیر کے لیے ناموسِ فطرت کی طرف توجہ کیجیے جو انسان یعنی ’’کائنات مجمل اور اس کے ماحول یعنی کائنات مفصل‘‘ میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور جس کی خلاف ورزی ’’بغاوت‘‘ ہے۔ مگر خدا کے لیے ان مسائل میں اتنے محو نہ ہو جائیے گا کہ قصے کی سادگی، اندازبیان کی دل آویزی اور ایک خاص طرح کی ظرافت جو بجا موجود ہے نظر سے چھپ جائے۔
(ڈاکٹر سید عابد حسین)

ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن کا ذکر ہے، مسافر یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے تھے اور گاڑیاں اور بھی کم، لیکن کسی مصلحت سے خداوندانِ تدبیر نے تین ملازمان ریلوے کا یہاں تعین کر رکھا تھا جن کی تفصیل یہ ہے، ایک اسٹیشن ماسٹر (بڑے بابو) ایک ٹکٹ بابو اور ایک سگنل والا۔
کشن پرشاد اسٹیشن ماسٹر کشیدہ قامت متین آدمی تھے۔ ان کا چہرہ چوڑا چکلا تھا اور مونچھیں بھری بھری اور کسی قدر نیچے کی طرف مڑی ہوئی، ظاہر ہے کہ ان کی ذات گویا اسٹیشن کے مرقعے میں نقش مرکزی تھی۔ یہ اپنی تنہائی کی زندگی پر قانع بلکہ اس میں مگن تھے اور جو کوئی ان کے پرسکون چہرے اور خاموشی بھری آنکھوں پر نظر ڈالتا اسے اس بات پر حیرت نہ ہوتی۔ ان کے چہرے سے غور و فکر، علم و فضل کا اظہار ہوتا تھا، حالانکہ انھوں نے برائے نام تعلیم پائی تھی اور ان کی چمک ان کے کور سواد ساتھیوں کے ساتھ۔۔۔ تقابل کا نتیجہ تھی۔ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close