پو پھٹنے تک

Shayari By

راملو کی چھوٹی سی کٹیا میں آٹھ زندگیاں سانس لیتی تھیں۔ اسی کٹیا میں انکیا کا بچپن جوانی سے جاملا تھا۔ اسی کٹیا میں ملیا کی میں بھیگی تھیں۔ اسی کٹیا میں پوچی نے شرمانا سیکھا تھا۔ او رپھر اسی کٹیا میں انکیا کی بیوی نے دو بچے بھی جنے تھے۔۔۔ اور اب یہی بچے دن دن بھر کٹیا کے باہر ننگ دھڑنگ کھیلا کرتے تھے۔ راملو نے اسی کٹیا میں خوشیاں دیکھیں، غم سہے۔
دن تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا۔ رات کو راملو اپنی بوڑھی بیوی کے ساتھ ایک کونے میں پڑ رہتا۔ دوسرے کونے میں انکیا اور اس کی بیوی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ چمٹے رہتے۔ تیسرے کونے میں ملیّا اور پوچی اپنے سر جوڑ لیتے۔ پیٹھ کے بھائی بہن ہونے کی وجہ سے ملیا اور پوچی میں بہت پیار تھا۔ چوتھے کونے میں جہاں چولہا تھا ایک دو مٹی کی ہانڈیاں پڑی رہتیں، جہاں آس پاس کے مریل کتے موقع پاکر پہنچ جاتے۔

راملو کے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کو اس کٹیا سے کوئی شکایت نہ تھی اور اگر شکایت تھی تو اس میں کٹیا کا کیادوش تھا، دوش تھا تو راملو کا، اس کی بیوی کا جنہوں نے ایک نہیں دو نہیں آٹھ بچوں کو اسی کٹیا میں جنم دیا تھا۔ وہ تو اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ ہیضہ پھوٹ پڑا تو ایک ہی سال میں راملو کے پانچ بچے اسی کٹیا میں مر گیے۔ تین بچ گیے تو راملو اور اس کی بیوی نے پیٹ کاٹ کاٹ کر ان کو پروان چڑھایا۔ انھیں اس قابل بنایا کہ اب وہ بھی اسی کٹیا میں بچے جَن سکیں۔ ہیضے کی وبا نہ پھوٹتی اور راملو کے پانچ بچے نہ مرتے تو اسی کٹیا میں آج تیرہ زندگیاں سانس لیتیں یا سانس لینے کی خواہش میں سسکتی رہتیں۔ راملو کا دم گھٹ جاتا۔ وہ اپنی بیوی کو افیون کھلاکر اور خود کھاکر سو رہتا یا بوکھلاکر کسی گھنے درخت کے سائے میں پناہ لیتا یا نہیں معلوم اور کیا ہوتا۔ یہ بھی تو عین ممکن تھا کہ اتنے افراد اس کٹیا میں سانس لیتے تو ان کی سانوھں کی گرمی ہی سے اس کٹیا کو آگ لگ جاتی اور اگر آگ نہ لگتی تو چھپر اڑ جاتا۔ راملو کے بھگوان کی کرپا تھی جو اس کے پانچ بچے ہیضے کا شکار ہوگیے اور آج راملو اپنے خاندان کے سات افراد کے ساتھ اس کٹیا میں سانس لینے کے لیے زندہ رہ گیا۔
انکیاں کی بیوی آنے والی تھی، ساس سسر متفکر تھے کہ اس کٹیا میں کس طرح گزر بسر ہوگی۔ لیکن انکیا کی بیوی آئی تو وہ بھی نہ سوچ سکے کہ کس طرح گزر بسر کر رہی ہے اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اسی کٹیا میں دو بچے جن دیے۔ اب راملو اور اس کی بیوی کے لیےبیٹے اور بہو کا کٹیا میں رہن سہن کوئی مسئلہ ہی نہ رہا۔ لیکن آج راملو اور اس کی بیوی زیادہ پریشان تھے۔ ملیا کی ننھی منی گھر والی پھوٹ پھاٹ کر اب جوان ہوگئی تھی۔ ملیا ان تبدیلیوں سے واقف تھا اس لیے وہ اپنی جروا کو جلد ہی اپنے ساتھ لے آنا چاہتا تھا۔ [...]

فاصلے

Shayari By

رحمت خاں خاصا طویل تھا۔ دور دور تک پرانے مکانوں کی دو رویہ قطاریں پھیلی ہوئی تھیں، آخر میں جہاں آنے جانے والوں کے لیے راستہ بند کرنے کی خاطر ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی۔ آمنے سامنے پانچ دکانیں اس کوچے میں رہنے والوں کی ضرورتیں پوری کر رہی تھیں۔ ان دکانوں سے کچھ دور، دیوار کے ساتھ لکڑی کا ایک تخت بچھا رہتا تھا، کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تخت کب بچھایا گیا تھا اور اس کو بچھانے والا کون تھا اور یہ جاننے کے لیے کسی کو ضرورت بھی نہیں تھی۔ دکانداروں کو اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دقت نہیں تھی اور نہ اس پر کسی کو اعتراض تھا۔ کسی دکاندار کو دن بھر کے لیے کہیں فالتو سامان رکھوانے کی مجبوری ہوتی تھی تو وہ بلاتکلف اپنی یہ چیزیں اس تخت پر ڈھیر کردیتا تھا اور دکان بند کرتے وقت انھیں اٹھوا لیتا تھا۔
یہ تخت عام طور پر سامان رکھوانے ہی کے کام آتا تھا مگر چند ماہ سے اس مصرف کے ساتھ ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی بھی یہاں دن کا بیشتر حصہ گزارنے لگا تھا، یہ شخص جس کا نام حسین احمد تھا۔ خود اس کوچے میں نہیں رہتا تھا۔ دوسرے محلے میں رہتا تھا۔ صبح سویرے آ جاتا تھا او ردوپہر کے آدھ پونے گھنٹے کے وقفے کے سوا شام تک یہیں پرا رہتا تھا۔

دکاندار اس سے حوش تھے۔ کیونکہ انھیں اس شخص کے روپ میں ایک قسم کا نوکر مل گیا تھا۔ ایک ایسا نوکر جو کسی سے پیسہ بھی نہیں لیتا تھا اور ہر ایک کا کام بخوشی کر دیتا تھا۔ کسی کو کسی ضرورت سے گھر جانا پڑتا تھا تو وہ اسے دکان میں بٹھاکر چلا جاتا تھا اور دکان کی طرف سے بےفکر ہو جاتا تھا۔
حسین احمد کے لیے ان پانچ دکانوں میں سے چار دکانوں کے اندر بیٹھ کر ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیے سودا بیچنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں تھا۔ بشیر اور راشد کی دکانوں میں دالیں، آٹا اور ایسی ہی اشیائے صرف بکتی تھیں اور وہ ان کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر چکا تھا۔ تیسری دکان بوتلوں اور پان سگریٹ کی تھی۔ اس سے ملحقہ دکان میں ڈبل روٹی، انڈے، اچار، جام اور اس قسم کی چیزیں دستیاب تھیں۔ پان سگریٹ کی دکان کا کرایہ دار ابراہیم تھا اور ڈبل روٹی اور انڈوں کی دکان میں خود بیٹھتا تھا۔ ان دکانوں میں بھی بیٹھنے اور وقتی طور پر انھیں چلانے میں حسین احمد کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ البتہ پانچویں دکان جو افضال درزی کی تھی۔ یہاں وہ صرف بیٹھ کر دکان کی چیزوں کی نگرانی ہی کر سکتا تھا۔ درزی کا کام کرنا اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ [...]

اولڈ ایج ہوم

Shayari By

آخری سیڑھی اور اس کے کمرے کے درمیان کم و بیش دس گز کا فاصلہ حائل تھا اور یہ فاصلہ اس کے لیے ایک بڑی آزمائش کا حرملہ بن جاتا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتا تھا تو اسے کسی قدر اطمینان ہوجاتا تھا کہ اس کے پوتے اور پوتیوں کے حملے سے اس کا کمرہ محفوظ ہے مگر جب اس کے دونوں پٹ کھلے ہوتے تھے اور دروازے کے باہر کمرے کی کوئی نہ کوئی چیز پڑی ہوتی تھی تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوجاتی تھی اور چہرے کی بوڑھی رگیں زیادہ نمایاں ہوکر اس کی کرب انگیز دلی کیفیت کا اظہار کرنے لگتی تھیں۔
اس وقت کمرے کے دونوں پٹ کھلے تھے۔

’’او میرے خدایا۔‘‘ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔
جس غارت گری کا اس نے اندازہ لگایا تھا وہ صورت حال سے کچھ کمتر ہی تھی۔ اس روز محمود اور اس کی دونوں بہنوں نے معمول سے زیادہ ہی تباہی مچادی تھی۔ [...]

شہید آزادی

Shayari By

ضرورت ہے،
’’ایک تعلیم یافتہ، سلیقہ مند، خوشرو نوجوان لڑکی کے لیے ایک شوہر کی جو تمام مردانہ خصوصیات تعلیم کے ساتھ کم از کم پانچ سو روپیہ ماہوار کی آمدنی کا مالک اور حسنِ ظاہری کے ساتھ ادبی ذوق بھی رکھتا ہو۔ تصویریں مطلوب ہیں۔‘‘

ہرچند رشید اشتہاری شادی کا موافق نہ تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ اس طرح شوہر کی تلاش کرنا گویا لڑکی کو نیلام میں رکھ دینا ہے، یا پھر اپنے آپ کو سخت امتحان میں مبتلا کر دینا، اس لیے جب اس نے ایک اخبار میں یہ اشتہار دیکھا تو تھوڑی دیر کے لیے اس نے خیالی لذت تو ضرور حاصل کر لی، لیکن کوئی خلش اپنے دل میں پیدا نہیں کی۔ اخبار دیکھ کر وہیں میز پر رکھ دیا اور اپنے کاروبار کے کاغذات دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔
رشید نہ صرف ’’تعلیم‘‘ کے تازہ ترین مفہوم کے لحاظ سے ’’تعلیم یافتہ‘‘ تھا بلکہ ا پنے اخلاق و آداب کے اعتبار سے بھی وہ ایک بلند سیرت کا انسان تھا۔ کالج سے نکلنے کے بعد اس کے والد نے بہت کوشش کی کہ سرکاری ملازمت اختیار کرے لیکن اس نے ہمیشہ اس خواہش کو رد کر دیا اور آخر کار ایک مختصر سرمایہ سے اس نے ’’میل آرڈر بزنس‘‘ دہلی میں شروع کر دیا۔ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close