خاندانی کرسی

Shayari By

ایئرپورٹ سے نکل کر جب وہ لاہور کی وسیع، شاداب اور خوبصورت سڑکوں سے اپنے بھتیجے کے ساتھ گزرنے لگا تو اسے انیس برس کے پرانے لاہور اور موجودہ لاہور میں کوئی خاص فرق محسوس نہ ہوا۔ کوئی بھی ایسی تبدیلی اسے نظر نہ آئی جو پرانے لاہور سے نئے لاہور کو الگ کرتی۔ وہی سب کچھ تو تھا جو وہ کبھی کبھی کسی دوست سےملنے یا صرف سیر و تفریح کی خاطران سڑکوں پر، گھومتے ہوئے ان سڑکوں کے دو رویہ کھڑے ہوئے درختوں پر اور ان بارونق دکانوں پر بارہا دیکھ چکا تھا۔
اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے اور پورے انہماک سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کےجوان سال بھتیجے نے اس کے خیالات کا جائزہ لے لیا تھا اور اب اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

’’انکل! شاید آپ سوچ رہے ہیں کہ لاہور تو وہی ہے۔‘‘
’’ہاں انور کچھ ایسی ہی سوچ میرے ذہن میں ہے۔‘‘ [...]

گرم لہو میں غلطاں

Shayari By

ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھادیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار پونچھ رہی تھیں اور سامنے رکھے بڑے سے طوق کے ڈھانچے کو برابر نہارے جارہی تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا سونا دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ پھر انہوں نے پاس رکھے ہوئے خمیدہ نے اور مٹی کے پیندے والے حقے کو جھکا کر بانس کی سرمئی نے موٹے موٹے لرزتے ہونٹوں میں دبالی اور ایک پھسپھسا کش لیا اور میرا سارا حافظہ جھنجھنا گیا۔
شادی کابھرا پرا گھر مہمان عورتوں اور ندیدے بچوں کی پرشور آوازکے تھپیڑوں سے ہل رہا تھا اور میں ڈولتا ہوا ان کے قریب سے گزرا جارہا تھا۔ میں نے جاتے جاتے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا جیسے مارکین کے ٹکڑے پر بجھتے کوئلوں کا عکس لپک گیا اور انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا،’’تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘اور میری آنکھوں کے سامنے یادوں کے ورق اڑنے لگے۔ ابھی نہ ہندوستان آزاد ہوا تھا اور نہ پاکستان پیدا ہوا تھا۔ نہ زمینداری ختم ہوئی تھی اور نہ آم کی فصلیں روزی کا وسیلہ بنی تھیں۔ سب کچھ اسی طرح موجود تھا جس طرح صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ انگریز خدا اپنے گدھوں کو سونے کے توبڑوں میں خشکہ نہیں بریانی کھلا رہا تھا اور اس سال آم کی فصل اس طرح ٹوٹ کر آئی تھی کہ گلی کوچے پھلوں سے سڑنے لگے تھے۔ تخمی باغوں کے باغبانوں کی لین ڈوری پھاٹک سے ڈیوڑھی تک سروں پر چیندہ آموں کے جھوے لادے کھڑی رہتی۔ تیسرے درجے کے مسافروں کی طرح انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ ہاں قلعی باغوں کے باغبان فرسٹ کلاس کے مسافروں کی طرح فضیلت سے نوازے جاتے اور ان کے آم ہاتھ کے ہاتھ گنالیے جاتے۔

دور تک پھیلے ہوئے اونچی چھتوں اور موٹے ستونوں والے لق ودق دالانوں میں کچے پکے آموں کی جازم بچھی رہتی۔ بوڑھی بدصورت اور کٹکھنی عورتیں ہاتھوں میں لمبی لمبی لکڑیاں لیے ندیدے لڑکوں اور ہتھ لکی عورتوں کو گالیاں اور کوسنے بانٹا کرتیں۔ اس روز اندر سے باہر تک جیسے ساری فضا بدلی ہوئی تھی، دھلی دھلائی سی لگ رہی تھی۔ ڈیوڑھی میں نہ جھوے، نہ کدالیں، نہ کھرپے اور نہ وہ مانوس بھناٹا، صاف صفیلا آنگن، اندرونی دالان کے چوکے اور گاؤ تکیے صندوق سے نکلے، تخت پوش اور غلاف پہنے میاں پوت بنے بیٹھے تھے۔ ماہی پشت والے نواڑی پلنگوں پر آدھے آدھے سوتی قالین پڑے تھے۔ پان خوروں کے منہ کی طرح لال لال اگالدان انگریزوں کے منھ کی طرح صاف صاف رکھے تھے۔ مرادآبادی پاندان اور لوٹے اور سرپوش سب اجلے اجلے کپڑے پہنے سلیقے سے اپنی جگہ کھڑے بیٹھے تھے۔ چھت میں جھولتے بھاری پنکھے تک کو دھلا جوڑا پہنادیا گیا تھا۔
بالکل عید بقرعید کا سا ماحول تھا، لیکن بقرعید کا سا شور نہ ہنگامہ۔ کمرے کے پانچوں دروازوں پر پڑے ہوئے خس کے موٹے موٹے بدوضع پردوں کے نیچے پانی کے چھوٹے چھوٹے سے تھالے بن گیے تھے۔ اندر چھت کے دوہرے پنکھوں کی اکلوتی رسی لوہے کی گراری پر تیز تیز چل رہی تھی جیسے چڑیوں کے کئی جوڑے ایک ساتھ چوں چوں کر رہے ہوں۔ میں نے ذرا جھجک کر پردا اٹھایا تو محسوس ہوا جیسے یہاں سے وہاں تک سارا کمرہ ان کی روشنی سے جھم جھمارہا ہے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا جیسے امام باڑے میں رکھا ہوا چاندی کا تعزیہ دیکھا جاتا ہے جیسے دسہرے کی جھانکی دیکھی جاتی ہے۔ [...]

مجو بھیا

Shayari By

پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کردی۔
پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پوٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کامقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگاکر اڑنے لگا۔

شبرات کاچاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آگیے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گیے۔ کڑک کر پوچھا،
’’یہ کیا؟‘‘ [...]

نیا قانون

Shayari By

لکھنو کے سر پر اختر نگر کا تاج رکھا تھا جس کے ہیرے کمہلانے اور موتی سنولانے لگے تھے۔ آہستہ خرام گومتی امام باڑہ آصفی کے چرن چھوکر آگے بڑھی تو ریزیڈنسی کے سامنے جیسے ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی۔ موجوں نے بے قراری سےسر اٹھااٹھاکر دیکھا لیکن پہچاننے سے عاجز رہیں کہ ریزیڈنسی نواب ریزیڈنٹ بہادر کی کوٹھی کے بجائے انگریزوں کی چھاونی معلوم ہو رہی تھی۔ تمام برجوں اور فرازوں پر توپیں چڑھیں ہوئی تھیں۔ راؤٹیوں اور گمزیوں کا پورا جنگل لہلہا رہا تھا۔ حصا رپر انگریز سواروں اور پیدلوں کا ہجوم تھا۔ دونوں پھاٹکوں کے دونوں دروں پربندوقیں تنی ہوئی تھیں۔
پھر راہ چلتوں نے دیکھا کہ قیصر باغ کی طرف سے آنے والی سڑک حیدری پلٹن کے سواروں سے جگمگانے لگی جن کی وردیاں دولہا کے لباسوں کی طرح بھڑکدار اور ہتھیار دولہن کے زیوروں کی طرح چمکدار تھے۔ ریزیڈنسی کے جنوبی پھاٹک پر چھلبل کرتے سواروں کے پردے سے وزیر اعظم نواب علی نقی خاں اور وکیل السلطنت موتمن الدولہ کے بوچے برآمدہوئے جن کے درمیان دس پندرہ سواروں کے اردل کا حجاب تھا اور سامنے انگریز سپاہیوں کے ہتھیاروں کی دیواریں کھڑی تھیں۔ دیر کے انتظار کے بعد افسرالتشریفات نے آکر ان سواریوں سے اتارا اور اپنے اردل کے حلقے میں پیادہ پیش دامان تک لے گیا جس کی سیڑھیوں پر سر سے پاؤں تک اپچی بنےہوئے گارڈز کا دستہ کھڑا تھاجیسے زینت کے لیے مجسمے نصب کردیے گیے ہوں۔

کشتی دار تکیوں کی آبنوسی کرسی پر وہ دونوں پڑے سوکھتے رہے۔ اپنے ذاتی محافظ رسالے کے متعلق سوچتے رہے جو پھاٹک پر روک لیا گیا تھا اور مغربی دروازے سے داخل ہونے والی توپوں کی گڑگڑاہٹ سنتے رہے۔ پھر فوجی افسروں کے جھرمٹ میں وہ ریزیڈنٹ کی اسٹڈی میں باریاب ہوئے۔ ریزیڈنٹ بہادر اسی طرح کرسی پر پڑے رہے۔ ابرو کے اشارے پر وزیر اعظم اور وکیل السلطنت اس طرح بیٹھ گیے جیسے وہ ریزیڈنٹ کی اسٹڈی میں نہیں واجد علی شاہ کے دربار میں کرسی نشینی سے سرفراز کیے گیے ہوں۔ تامل کے بعد صاحب بہادر نے اپنے پہلو میں کھڑے ہوئے میر منشی صلابت علی کو سرکی جنبش سے اشارہ کیا اورمیر منشی ایک خریطہ کھول کر پڑھنے لگا اور جب اس کے منھ سے یہ فقرہ ادا ہوا، ’’کمپنی بہادر نے پچاس لاکھ سالانہ کے وظیفے کے عوض میں سلطنت کا الحاق کرلیا۔‘‘ تو وکیل السلطنت کہ سپاہی بچہ تھا ہرچند کہ سپہ گری کے سبق بھول چکا تھا تاہم نیزے کی طرح تن کر کھڑا ہوگیا۔
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘ [...]

لالہ امام بخش

Shayari By

رمواپور کے لالہ دیبی بخش جب مچھر ہٹہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ’’موکل‘‘ ملو بھر جی لائی کا تعزیہ بنارہا تھا۔ ہندو بھرجی کو مسلمانوں کے کرم کرتے دیکھا تو جل کر رہ گیے۔ چنے کی طرح چٹختی آواز میں مقدمے کی پیروی کو بقایا کاتقاضہ کردیا۔ ملوبے چارہ للو چپو کرنے لگا۔ اور بتلاتے بتلاتے وہ منت بھی بتلاگیا جو اس نے امام حسین سے مانگی تھی اور پائی تھی۔ لالہ لاٹھی کی مٹھیا پر ٹھڈی رکھے کھڑے سنتے رہے اور سنتے سنتے اپنی سوکھی ماری للائن کی ہری گود کے مہکتے سپنوں میں کھو گیے۔ جب جاگے تو چوکے میں تھالی پروسی دھری تھی اور للائن بدن کی اکلوتی دھوتی کے پلو سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ پہلے وہ جھوٹ موٹ منھ چھوتی رہیں پھر پھیل گئیں اور لالہ کو ملو بھرجی کا حال بتانا پڑا۔ للائن نے چپ سادھ لی۔ وہی چپ جس کے جادو سے چاندی ایسی دلہن مٹی کے مادھو سے نکاح قبول کرلیتی ہے۔
جب سوچتے سوچتے لالہ دیبی بخش کی کھوپڑی تڑخ گئی، آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور مچھر ہٹہ میں بجتےہوئے محرمی باجوں کی دھمک ان کے سنسان آنگن میں منڈلانے لگی تب لالہ دیبی بخش اپنی کھٹیا سے اٹھے۔ چراغ کی ٹھنڈی پیلی روشنی میں جھاویں سے مل مل کر خوب نہائے اور دھوبی کا دھلا ہوا جوڑا پہنا جسے ڈٹ کر مسرکھ اور سیتاپور کی کچہریوں میں وہ ٹکے ٹکے پر مقدمے لڑاتے ہیں۔ دروازے سے نکلتے نکلتے للائن کو جتا گیے کہ میں رات کے گیے لوٹوں گا۔ جیسے جیسے مچھرہٹہ قریب آتا جاتا اور باجوں کی گھن گرج نزدیک ہوتی جاتی ویسے ویسے ان کے دل کی دھیرج بڑھتی جاتی۔ جوگی اپنے چوک پر رکھی ہوئی ضریح کے آگے اچھل اچھل کر ماتم کر رہے تھے اور مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ گلستاں بوستاں چا ٹے ہوئے لالہ دیبی بخش نے آدمیوں کی دیوار میں اپنا راستہ بنایا اور کھڑے پگھلتے رہے۔ نیم سار کے مندر میں درگا میا کی مورتی کی طرح سامنے ضریح مبارک رکھی تھی۔ لالہ نے کانپتے ہاتھوں کو سنبھال کر جوڑا اور آنکھیں بند کرلیں۔ جب وہ وہاں سے ٹلے تو چاندنی سنولانے لگی تھی، سڑکیں ننگی پڑی تھیں روشنیوں کی آنکھیں جھپکنے لگی تھیں۔ باجے سو گیے تھے۔ دوکانوں نے پلکیں موند لی تھیں۔ اور وہ خود دیر تک سوکر اٹھے ہوئے بچے کی طرح ہلکے پھلکے اور چونچال ہوگیے تھے۔

پھر ان کےتعزیہ نے بھی ملو بھرجی کی کہانی دہرادی۔ گھر کے اکلوتے کمرے کی کنڈی میں پانی بھرنے والی رسی میں پرویا ہوا جھوا جھولنے لگا جس میں ایک گل گوتھنا بچہ آنکھوں میں کاجل بھرے ہاتھ پیروں میں کالے تاگے پہنے اور ڈھیروں گنڈے تعویز لادے ہمک رہا تھا۔ لالہ کو بھائی برادری کے خوف نے بہت دہلایا لیکن وہ مانے نہیں اور اپنے سپوت کا نام لالہ امام بخش رکھ ہی دیا۔ یہ چھوٹے سے لالہ امام بخش پہلے امامی لالہ ہوئے پھر ممولالہ بنے اور آخر میں ممواں لالہ ہوکر رہ گیے۔
لالہ نے ممواں لالہ کو پھول پان کی طرح رکھا۔ ان کے پاس زمینداری یا کاشتکاری جو کچھ بھی تھی تیس بیگھے زمین تھی جسے وہ جوتتے بوتے تھے لیکن اس طرح کہ جیتے جی نہ کبھی ہل کی مٹھیا پر ہاتھ رکھااور نہ بیل بدھیا پالنے کا جھگڑا مول لیا۔ لیکن کھلیان اٹھاتے تھے کہ گھر بھر جاتا تھا۔ کرتے یہ تھے کہ ایسے ایسوں کو مقدمے کی پیروی کے جال میں پھانس لیتے تھے جو بل بھی چلاتے اور پانی بھی لگاتے۔ لالہ کی کھیتی ہری رہتی اور جیب بھری۔ ممواں لالہ بڑھتا گیا اور لالہ کا آنگن پاس پڑوس کے الاہنوں سے بھرتا گیا۔ کسی کو گالی دے دی، کسی کا بیل بدھیا کھول دیا کسی کاکھیت نوچ لیا، کسی کا باغ کھسوٹ لیا۔ لالہ دیبی بخش سب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے، بیگار بھگتتے، پیسے کوڑی سے بھرنا بھرتے لیکن لاڈلے کو پھول کی چھڑی بھی نہ چھلاتے۔ [...]

مالکن

Shayari By

۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتاپور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کردیا۔ صدیوں کا بنابنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے برابر کرتی ہوئی رونق پور میں داخل ہوگئی۔
رونق پور پہلے ہی سے خالی ڈھابلی کی طرح ننگا پڑا تھا۔ سارے گاؤں میں بس حویلی کھڑی تھی۔ حویلی کی کھڑکیوں سے اکا دکا بدحواس آدمیوں کے چہرے نظر آجاتے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹک رہے ہوں۔ حویلی کچی تھی۔ لیکن کوئی سو برس سے گھنگھور برساتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں کی چوڑان پر جہازی پلنگ بچھائے جاسکتے تھے۔ مشہور تھا کہ ایک نوسکھیا چور رونق پور کے نجیب الطرفین کا مہمان ہوا۔ رال ٹپکاتی نظروں سے حویلی کو دیکھ کر ہتھیلیاں کھجلانے لگا اور کنکھیوں سے ہاتھ کی صفائی دکھلانے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ میزبان کو دل لگی سوجھی۔ اس نے کچھ اتا پتا بتاکر آدھی رات کو رخصت کردیا۔ مہمان ایک دیوار پر سابر لے کر جٹ گیا۔ کھودتا رہا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ دیوار اسی طرح کھڑی تھی۔ اسی ٹھاٹ باٹ سے کھڑی تھی۔ وہ بیچارہ نامراد واپس ہوا۔

لیکن بنانے والوں نے حویلی بنائی تھی۔ ’’جل بھون‘‘ نہیں بنایا تھا۔ اوپر سے ’’ہتھیانکہت‘‘ برستا تھا اور نیچے برجھائی ہوئی مست ہتھنی کی طرح گھاگھرا چوٹیں کر رہی تھی۔ پہلے پھاٹک گرا، پھر دیوان خانہ۔ جب ڈیوڑھی گر گئی اور اندر کے کئی درجے بیٹھ گیے تب چودھری گلاب کی نمک حلالی کو غیرت آئی۔ علاقے بھر کے نامی نامی کہاروں اور مچھیروں کی چھوٹی سی فوج بنائی اور ان کے بازوؤں کے بجرے پر چڑھ کر تھان گاؤں سے نکلے اور رونق پور کی حویلی میں اترگیے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی مالکن کو کانپتی ہوئی آواز میں خطاب کیا۔
’’حضور اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ حکم دیجیے تو جان پر کھیل کر پالکی چڑھالاؤں اگر سرکارکی جوتیاں تک بھیگ جائیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا۔ گھاگرا کی پاگل موجوں کی دل دہلادینے والی بھیانک آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چودھری گلاب نے آہستہ سے پھر کہا تو آوازئی، [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close