رحمت خاں خاصا طویل تھا۔ دور دور تک پرانے مکانوں کی دو رویہ قطاریں پھیلی ہوئی تھیں، آخر میں جہاں آنے جانے والوں کے لیے راستہ بند کرنے کی خاطر ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی۔ آمنے سامنے پانچ دکانیں اس کوچے میں رہنے والوں کی ضرورتیں پوری کر رہی تھیں۔ ان دکانوں سے کچھ دور، دیوار کے ساتھ لکڑی کا ایک تخت بچھا رہتا تھا، کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تخت کب بچھایا گیا تھا اور اس کو بچھانے والا کون تھا اور یہ جاننے کے لیے کسی کو ضرورت بھی نہیں تھی۔ دکانداروں کو اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دقت نہیں تھی اور نہ اس پر کسی کو اعتراض تھا۔ کسی دکاندار کو دن بھر کے لیے کہیں فالتو سامان رکھوانے کی مجبوری ہوتی تھی تو وہ بلاتکلف اپنی یہ چیزیں اس تخت پر ڈھیر کردیتا تھا اور دکان بند کرتے وقت انھیں اٹھوا لیتا تھا۔ یہ تخت عام طور پر سامان رکھوانے ہی کے کام آتا تھا مگر چند ماہ سے اس مصرف کے ساتھ ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی بھی یہاں دن کا بیشتر حصہ گزارنے لگا تھا، یہ شخص جس کا نام حسین احمد تھا۔ خود اس کوچے میں نہیں رہتا تھا۔ دوسرے محلے میں رہتا تھا۔ صبح سویرے آ جاتا تھا او ردوپہر کے آدھ پونے گھنٹے کے وقفے کے سوا شام تک یہیں پرا رہتا تھا۔ دکاندار اس سے حوش تھے۔ کیونکہ انھیں اس شخص کے روپ میں ایک قسم کا نوکر مل گیا تھا۔ ایک ایسا نوکر جو کسی سے پیسہ بھی نہیں لیتا تھا اور ہر ایک کا کام بخوشی کر دیتا تھا۔ کسی کو کسی ضرورت سے گھر جانا پڑتا تھا تو وہ اسے دکان میں بٹھاکر چلا جاتا تھا اور دکان کی طرف سے بےفکر ہو جاتا تھا۔ حسین احمد کے لیے ان پانچ دکانوں میں سے چار دکانوں کے اندر بیٹھ کر ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیے سودا بیچنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں تھا۔ بشیر اور راشد کی دکانوں میں دالیں، آٹا اور ایسی ہی اشیائے صرف بکتی تھیں اور وہ ان کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر چکا تھا۔ تیسری دکان بوتلوں اور پان سگریٹ کی تھی۔ اس سے ملحقہ دکان میں ڈبل روٹی، انڈے، اچار، جام اور اس قسم کی چیزیں دستیاب تھیں۔ پان سگریٹ کی دکان کا کرایہ دار ابراہیم تھا اور ڈبل روٹی اور انڈوں کی دکان میں خود بیٹھتا تھا۔ ان دکانوں میں بھی بیٹھنے اور وقتی طور پر انھیں چلانے میں حسین احمد کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ البتہ پانچویں دکان جو افضال درزی کی تھی۔ یہاں وہ صرف بیٹھ کر دکان کی چیزوں کی نگرانی ہی کر سکتا تھا۔ درزی کا کام کرنا اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔
[...]