باغی

Shayari By

آم کا کنج اور بڑے بابو، ان دونوں میں کوئی تعلق بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان باوجود ضرب المثل کثرت کے وحدت کاملک ہے۔ یہاں ہر چیز دوسری چیز سے رشتہ رکھتی ہے، یہ رشتہ ہر شخص کو نظر نہیں آتا، لیکن شاعر (یہاں اس لفظ کے وسیع معنی مراد ہیں) کی درد پرور نظر اسے دیکھتی ہے اور دوسروں کو دکھاتی ہے اور جو دیکھنے سے انکار کرے وہ ’’باغی‘‘ کہلاتا ہے۔ باغی کا مفہوم سمجھنے کے لیے تعزیرات ہند، عدالت اور کالا پانی کاخیال دل سے نکال دیجیے اور ذرا دیر کے لیے ناموسِ فطرت کی طرف توجہ کیجیے جو انسان یعنی ’’کائنات مجمل اور اس کے ماحول یعنی کائنات مفصل‘‘ میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور جس کی خلاف ورزی ’’بغاوت‘‘ ہے۔ مگر خدا کے لیے ان مسائل میں اتنے محو نہ ہو جائیے گا کہ قصے کی سادگی، اندازبیان کی دل آویزی اور ایک خاص طرح کی ظرافت جو بجا موجود ہے نظر سے چھپ جائے۔
(ڈاکٹر سید عابد حسین)

ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن کا ذکر ہے، مسافر یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے تھے اور گاڑیاں اور بھی کم، لیکن کسی مصلحت سے خداوندانِ تدبیر نے تین ملازمان ریلوے کا یہاں تعین کر رکھا تھا جن کی تفصیل یہ ہے، ایک اسٹیشن ماسٹر (بڑے بابو) ایک ٹکٹ بابو اور ایک سگنل والا۔
کشن پرشاد اسٹیشن ماسٹر کشیدہ قامت متین آدمی تھے۔ ان کا چہرہ چوڑا چکلا تھا اور مونچھیں بھری بھری اور کسی قدر نیچے کی طرف مڑی ہوئی، ظاہر ہے کہ ان کی ذات گویا اسٹیشن کے مرقعے میں نقش مرکزی تھی۔ یہ اپنی تنہائی کی زندگی پر قانع بلکہ اس میں مگن تھے اور جو کوئی ان کے پرسکون چہرے اور خاموشی بھری آنکھوں پر نظر ڈالتا اسے اس بات پر حیرت نہ ہوتی۔ ان کے چہرے سے غور و فکر، علم و فضل کا اظہار ہوتا تھا، حالانکہ انھوں نے برائے نام تعلیم پائی تھی اور ان کی چمک ان کے کور سواد ساتھیوں کے ساتھ۔۔۔ تقابل کا نتیجہ تھی۔ [...]

نازو

Shayari By

’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کردیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہوگئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہوگئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بددعائیں دے رہے تھے۔ اسےیقین نہ آرہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کرنابود ہوگئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔

ٹریکٹر پھر چلنےلگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑےانبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے،زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سےلبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آگیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونےلگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھوگئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نےاسے ایک گلی میں موڑدیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنےمکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سےکوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آجائے۔ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close