آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا!

Shayari By

جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں، تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ پانچوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘

برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔ [...]

آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا!

Shayari By

جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں، تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ پانچوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘

برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔ [...]

رپورٹر

Shayari By

وہ علاقہ جو صرف ایک سال پیشتر ایک انتہائی پس ماندہ گاؤں سمجھا جاتا تھا، حکومت اور لوگوں کی مشترکہ منصوبہ بندی، ایثار اور محبت سے ایک اچھا خاصا ترقی یافتہ قصبہ بنگیا تھا۔ کھنڈرات کی جگہ ایک منزلہ، دو منزلہ اور کہیں کہیں سہ منزلہ مکانات سر اٹھائے کھڑے تھے۔ شاندار حویلیاں بھی اپنے مالکوں کےحسن ذوق کا ثبوت دے رہی تھیں۔ سڑکیں، تمام کی تمام تو نہیں۔ ان کی معقول تعداد ہر قسم کی ٹریفک کے قابل ہو گئی تھی۔ کھیتوں میں فصلیں لہرا رہی تھیں۔ قصبے کے بعد حضوں میں کچھ مکان اور جھونپڑیاں بھی نظر آ جاتا تھیں مگر ان کے وجود سے قصبے کی مجموعی ترقی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تھا۔
قصبے کی مجموعی ترقی میں ایک شخص کا بڑا حصہ تھا۔ شہر سے اخباروں کےجو رپورٹر اس قصبے میں آنکھوں دیکھا حال دیکھنے گئے تھے۔ انہوں نے چند روز وہاں ٹھہر کر اپنے اپنے اخباروں کو جو رپورٹیں بھیجیں تھیں ان میں اس قصبے کی ترقی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا اور یہی ترقی کا سرچشمہ حاجی رحیم علی کی ذات کو قرار دیا گیا تھا جن کے پوتے کے نام پر اب اس قصبے کا نام ’خرم آباد‘ مشہور ہو گیا تھا۔

اخبارات کی رپورٹیں پڑھ پڑھ کر شہروں میں رہنےوالے لوگوں کی ’خرم آباد‘ میں دلچسپی لینی کوئی خلاف توقع بات نہیں تھی۔ وہ سمجھنے لگے تھے کہ خرم آباد اسی طرح بارونق ہوتا چلا گیا تو ایک روز یہ قصبہ نہیں رہےگا، شہر بن جائےگا۔
اخباروں میں ’خرم آباد‘ کی ہمہ جہت ترقی و فروغ کی روداد وقفے وقفے سے شائع ہو رہی تھیں مگر ایک ہفت روزہ ایسا بھی تھا جس میں اس سلسلے کی کوئی تحریر نہیں چھپتی تھی۔ اس ہفت روزہ کا نام ’صداقت شعار‘ تھا اور اس کے مالک اور ایڈٹر علی نیاز تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پرچے کاصرف نام ہی صداقت شعار نہیں ہے۔ وہ اپنی پالیسی کے اعتبار سے بھی صداقت شعار ہے۔ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close