گردن میں پھندا سخت ہوتا جا رہا تھا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے کے لئے زور لگانے لگی تھیں۔ منھ کا لعاب جھاگ بن کر ہونٹوں کے کونوں پر جمنے لگا تھا۔ موت اور زندگی کے درمیان چند لمحوں کافاصلہ اب باقی رہ گیا تھا۔ دم نکلنے سے پہلے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس نے شاخ کو دیکھا، جس میں وہ لٹکا دیا گیا تھا۔ وہ ہرابھرا نیا نیا جوان ہوا ایک درخت تھا۔ سڈول تنا، گھنی گھنی اجلی اجلی پتیاں، لچکیلی اور شاداب شاخیں۔ جس وقت اس کا بھاری بھرکم جسم شاخ میں لٹکایا گیا تھا اور اس کے بوجھ سے شاخ ہوا میں اوپر نیچے جھولی تھی اور اس کا لٹکا ہوا جسم رسی کے سہارے اوپر نیچے ہوا تھا اور تلوے ایک بار زمین سے چھوگیے تھے تو اس کے کانوں میں درخت کی شاخ سے ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز سنائی دی تھی۔ جن قزاقوں نے اسے لٹکایا تھا وہ سب اپنے تنومند اور مچلتےہوئے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر اپنے راستے پر ہو لیے تھے۔ اس نے ابلتی ہوئی آنکھوں سے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی گرد کو ایک پل کے لیے دیکھا تھا اور پھر اسے لچکتی ہوئی شاخ کی چرچراہٹ نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جن میں ابھی بصارت کی آخری کرن باقی تھی، اس جھولتی ہوئی شاخ کو دیکھا تھا۔ شاخ بہت موٹی نہ تھی اور اس کی لچک سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کے بوجھ کے پہلے جھٹکے پر کچھ چوٹ کھا گئی ہو۔ وہ اس طرح جھول رہی تھی جیسے اب ٹوٹی اور تب ٹوٹی۔ لیکن دماغ کے کسی گوشے میں وہ اس بات سے بھی باخبر تھا کہ چوٹ کھائی ہوئی شاخ نرم تھی، گیلی تھی۔ اس کی تازگی کے سبب شاخ کے سارے ریشے، ریشم کے دھاگوں کی طرح آپس میں مل کر مضبوط ہو چکے تھے۔ اگر وہ شاخ سوکھی ہوتی تو ریشے جگہ چھوڑ دیتے، لچکتے نہیں ٹوٹ جاتے اور حقیقت صرف اتنی تھی کہ شاخ صرف اس کے جسم کے ساتھ جھول رہی تھی۔ وہ سب اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر ہائی وے پر فرار ہو چکے تھے اور درخت سے کچھ ہی فیصلے پر حد نظر تک لیٹی ہوئی پکی چمکیلی اور سیاہ ہائی وے سنسان پڑی تھی۔
[...]