آخری سیڑھی اور اس کے کمرے کے درمیان کم و بیش دس گز کا فاصلہ حائل تھا اور یہ فاصلہ اس کے لیے ایک بڑی آزمائش کا حرملہ بن جاتا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتا تھا تو اسے کسی قدر اطمینان ہوجاتا تھا کہ اس کے پوتے اور پوتیوں کے حملے سے اس کا کمرہ محفوظ ہے مگر جب اس کے دونوں پٹ کھلے ہوتے تھے اور دروازے کے باہر کمرے کی کوئی نہ کوئی چیز پڑی ہوتی تھی تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوجاتی تھی اور چہرے کی بوڑھی رگیں زیادہ نمایاں ہوکر اس کی کرب انگیز دلی کیفیت کا اظہار کرنے لگتی تھیں۔ اس وقت کمرے کے دونوں پٹ کھلے تھے۔ ’’او میرے خدایا۔‘‘ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔ جس غارت گری کا اس نے اندازہ لگایا تھا وہ صورت حال سے کچھ کمتر ہی تھی۔ اس روز محمود اور اس کی دونوں بہنوں نے معمول سے زیادہ ہی تباہی مچادی تھی۔
[...]