لکڑ بگّے کی ہنسی

Shayari By

ہمالیہ اور شوالک کی درمیانی وادیاں ’ڈون‘ کہلاتی ہیں (جن میں سے ایک دہرہ دون ہے) سوا سو مربع میل پر پھیلا ہوا کوربٹ نیشنل پارک بھی ضلع نینی تال کی ایک ڈون میں واقع ہے۔ رام گنگا پہاڑوں سے اتر کر کوربٹ نیشنل پارک میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر پہاڑی سلسلہ ہے۔ دوسرے پر سال کا گھنا بن۔۔۔
جنگل میں شیر اور چیتے اور ہرن رہتے ہیں، رام گنگا میں گھڑیال، جو ہمارے وقت سے علاحدہ، جیو لوجیکل ٹائم اور ڈینو ساروں کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہاتھیوں اور دریائی گھوڑوں کی طرح جب کوئی جیپ جنگل کی سڑک پر سے گزرتی ہے، اس کی آہٹ پر شیر اور چیتے، چیتل اورسانبھر اور نیل گائیں چشم زدن میں غائب ہوجاتی ہیں۔ محض پتّوں کی سرسراہٹ، یا ایک جھلک یا ایک پرچھائیں، جیسے انسانی دماغ کے اندرونی جنگل میں چھپا کوئی خیال۔ اور کبھی رات کے وقت جیپ یا کار کی ہیڈ لائٹس کی زد میں بیٹھا ہنستا ہوا لکڑبگا یا اود بلاؤ یا سیاہ ریچھ دکھائی دے جاتا ہے، جیسے اچانک کوئی انجانا خوف مجسم ہوجائے۔

ہرنوں، رنگ برنگے پرندوں اور سانپوں سے بھرے گہرے بن پرچھائی ہوئی گھپ اندھیری رات کا راگ۔ بہتے دریا اور سوتے گھڑیالوں اور پرندوں اور درندوں اور برفانی سردی اور متحرک کہرے اور تاریکی کی بے آواز سمفنی۔
اس سال ماہ دسمبر میں جنگل کے کنارے ریسٹ ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں حسب معمول بھانت بھانت کے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اپنی کارواں کار میں انگلستان سے آیا ہوا ایک ریٹائرڈ فوجی افسر اور اس کی میم، کیمبرج یونیورسٹی کے طلباء جو ہمالیہ کی نباتات کے مطالعہ کے لیے آئے تھے، چند پورپین نوجوان، یہ سب خیموں میں مقیم تھے۔ کچھ فاصلے پر چھولداریوں میں ٹکے ٹھیکے دار اور مزدور کمپاؤنڈمیں نئی عمارتیں تعمیر کر رہے تھے۔ کوربٹ نیشنل پارک میں سیاحوں کی آمد و رفت بڑھتی جارہی ہے۔ [...]

مجو بھیا

Shayari By

پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کردی۔
پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پوٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کامقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگاکر اڑنے لگا۔

شبرات کاچاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آگیے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گیے۔ کڑک کر پوچھا،
’’یہ کیا؟‘‘ [...]

مالکن

Shayari By

۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتاپور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کردیا۔ صدیوں کا بنابنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے برابر کرتی ہوئی رونق پور میں داخل ہوگئی۔
رونق پور پہلے ہی سے خالی ڈھابلی کی طرح ننگا پڑا تھا۔ سارے گاؤں میں بس حویلی کھڑی تھی۔ حویلی کی کھڑکیوں سے اکا دکا بدحواس آدمیوں کے چہرے نظر آجاتے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹک رہے ہوں۔ حویلی کچی تھی۔ لیکن کوئی سو برس سے گھنگھور برساتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں کی چوڑان پر جہازی پلنگ بچھائے جاسکتے تھے۔ مشہور تھا کہ ایک نوسکھیا چور رونق پور کے نجیب الطرفین کا مہمان ہوا۔ رال ٹپکاتی نظروں سے حویلی کو دیکھ کر ہتھیلیاں کھجلانے لگا اور کنکھیوں سے ہاتھ کی صفائی دکھلانے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ میزبان کو دل لگی سوجھی۔ اس نے کچھ اتا پتا بتاکر آدھی رات کو رخصت کردیا۔ مہمان ایک دیوار پر سابر لے کر جٹ گیا۔ کھودتا رہا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ دیوار اسی طرح کھڑی تھی۔ اسی ٹھاٹ باٹ سے کھڑی تھی۔ وہ بیچارہ نامراد واپس ہوا۔

لیکن بنانے والوں نے حویلی بنائی تھی۔ ’’جل بھون‘‘ نہیں بنایا تھا۔ اوپر سے ’’ہتھیانکہت‘‘ برستا تھا اور نیچے برجھائی ہوئی مست ہتھنی کی طرح گھاگھرا چوٹیں کر رہی تھی۔ پہلے پھاٹک گرا، پھر دیوان خانہ۔ جب ڈیوڑھی گر گئی اور اندر کے کئی درجے بیٹھ گیے تب چودھری گلاب کی نمک حلالی کو غیرت آئی۔ علاقے بھر کے نامی نامی کہاروں اور مچھیروں کی چھوٹی سی فوج بنائی اور ان کے بازوؤں کے بجرے پر چڑھ کر تھان گاؤں سے نکلے اور رونق پور کی حویلی میں اترگیے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی مالکن کو کانپتی ہوئی آواز میں خطاب کیا۔
’’حضور اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ حکم دیجیے تو جان پر کھیل کر پالکی چڑھالاؤں اگر سرکارکی جوتیاں تک بھیگ جائیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا۔ گھاگرا کی پاگل موجوں کی دل دہلادینے والی بھیانک آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چودھری گلاب نے آہستہ سے پھر کہا تو آوازئی، [...]

مجو بھیا

Shayari By

پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کردی۔
پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پوٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کامقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگاکر اڑنے لگا۔

شبرات کاچاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آگیے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گیے۔ کڑک کر پوچھا،
’’یہ کیا؟‘‘ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close