ہوئے دیدار کے طالب خودی سے خود گزر نکلے نپائی راہ دانش میں خروشاں بے خبر نکلے نشان بے نشاں ہم ملک یک رنگی میں پاتے ہیں خبر چھوڑی دوئی کا ہم نے جب سے سٹ نگر نکلے بھرے دو نین کے چھگلاں صبوری ساتھ لے توشہ کمر ہمت سے باندھے ہور پرت کی بات پر نکلے نین کے ہاتھ کھپر لے پھریں درسن کی بھیکیاں کو نپائی ایک در پر بھی بھکاری دربدر نکلے رہے نادر خیالاں میں ملے شوریدہ حالاں میں ہوئے صاحب کمالاں میں کدھر سے آ کدھر نکلے