رمواپور کے لالہ دیبی بخش جب مچھر ہٹہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ’’موکل‘‘ ملو بھر جی لائی کا تعزیہ بنارہا تھا۔ ہندو بھرجی کو مسلمانوں کے کرم کرتے دیکھا تو جل کر رہ گیے۔ چنے کی طرح چٹختی آواز میں مقدمے کی پیروی کو بقایا کاتقاضہ کردیا۔ ملوبے چارہ للو چپو کرنے لگا۔ اور بتلاتے بتلاتے وہ منت بھی بتلاگیا جو اس نے امام حسین سے مانگی تھی اور پائی تھی۔ لالہ لاٹھی کی مٹھیا پر ٹھڈی رکھے کھڑے سنتے رہے اور سنتے سنتے اپنی سوکھی ماری للائن کی ہری گود کے مہکتے سپنوں میں کھو گیے۔ جب جاگے تو چوکے میں تھالی پروسی دھری تھی اور للائن بدن کی اکلوتی دھوتی کے پلو سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ پہلے وہ جھوٹ موٹ منھ چھوتی رہیں پھر پھیل گئیں اور لالہ کو ملو بھرجی کا حال بتانا پڑا۔ للائن نے چپ سادھ لی۔ وہی چپ جس کے جادو سے چاندی ایسی دلہن مٹی کے مادھو سے نکاح قبول کرلیتی ہے۔ جب سوچتے سوچتے لالہ دیبی بخش کی کھوپڑی تڑخ گئی، آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور مچھر ہٹہ میں بجتےہوئے محرمی باجوں کی دھمک ان کے سنسان آنگن میں منڈلانے لگی تب لالہ دیبی بخش اپنی کھٹیا سے اٹھے۔ چراغ کی ٹھنڈی پیلی روشنی میں جھاویں سے مل مل کر خوب نہائے اور دھوبی کا دھلا ہوا جوڑا پہنا جسے ڈٹ کر مسرکھ اور سیتاپور کی کچہریوں میں وہ ٹکے ٹکے پر مقدمے لڑاتے ہیں۔ دروازے سے نکلتے نکلتے للائن کو جتا گیے کہ میں رات کے گیے لوٹوں گا۔ جیسے جیسے مچھرہٹہ قریب آتا جاتا اور باجوں کی گھن گرج نزدیک ہوتی جاتی ویسے ویسے ان کے دل کی دھیرج بڑھتی جاتی۔ جوگی اپنے چوک پر رکھی ہوئی ضریح کے آگے اچھل اچھل کر ماتم کر رہے تھے اور مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ گلستاں بوستاں چا ٹے ہوئے لالہ دیبی بخش نے آدمیوں کی دیوار میں اپنا راستہ بنایا اور کھڑے پگھلتے رہے۔ نیم سار کے مندر میں درگا میا کی مورتی کی طرح سامنے ضریح مبارک رکھی تھی۔ لالہ نے کانپتے ہاتھوں کو سنبھال کر جوڑا اور آنکھیں بند کرلیں۔ جب وہ وہاں سے ٹلے تو چاندنی سنولانے لگی تھی، سڑکیں ننگی پڑی تھیں روشنیوں کی آنکھیں جھپکنے لگی تھیں۔ باجے سو گیے تھے۔ دوکانوں نے پلکیں موند لی تھیں۔ اور وہ خود دیر تک سوکر اٹھے ہوئے بچے کی طرح ہلکے پھلکے اور چونچال ہوگیے تھے۔ پھر ان کےتعزیہ نے بھی ملو بھرجی کی کہانی دہرادی۔ گھر کے اکلوتے کمرے کی کنڈی میں پانی بھرنے والی رسی میں پرویا ہوا جھوا جھولنے لگا جس میں ایک گل گوتھنا بچہ آنکھوں میں کاجل بھرے ہاتھ پیروں میں کالے تاگے پہنے اور ڈھیروں گنڈے تعویز لادے ہمک رہا تھا۔ لالہ کو بھائی برادری کے خوف نے بہت دہلایا لیکن وہ مانے نہیں اور اپنے سپوت کا نام لالہ امام بخش رکھ ہی دیا۔ یہ چھوٹے سے لالہ امام بخش پہلے امامی لالہ ہوئے پھر ممولالہ بنے اور آخر میں ممواں لالہ ہوکر رہ گیے۔ لالہ نے ممواں لالہ کو پھول پان کی طرح رکھا۔ ان کے پاس زمینداری یا کاشتکاری جو کچھ بھی تھی تیس بیگھے زمین تھی جسے وہ جوتتے بوتے تھے لیکن اس طرح کہ جیتے جی نہ کبھی ہل کی مٹھیا پر ہاتھ رکھااور نہ بیل بدھیا پالنے کا جھگڑا مول لیا۔ لیکن کھلیان اٹھاتے تھے کہ گھر بھر جاتا تھا۔ کرتے یہ تھے کہ ایسے ایسوں کو مقدمے کی پیروی کے جال میں پھانس لیتے تھے جو بل بھی چلاتے اور پانی بھی لگاتے۔ لالہ کی کھیتی ہری رہتی اور جیب بھری۔ ممواں لالہ بڑھتا گیا اور لالہ کا آنگن پاس پڑوس کے الاہنوں سے بھرتا گیا۔ کسی کو گالی دے دی، کسی کا بیل بدھیا کھول دیا کسی کاکھیت نوچ لیا، کسی کا باغ کھسوٹ لیا۔ لالہ دیبی بخش سب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے، بیگار بھگتتے، پیسے کوڑی سے بھرنا بھرتے لیکن لاڈلے کو پھول کی چھڑی بھی نہ چھلاتے۔
[...]