یہ خوف بھی نکال دوں سر میں نہیں رکھوں ...
تری زمیں میں محبت کے بیج بو نہ سکوں ...
سوچتا ہوں کہ مجھے تجھ سے محبت کیوں ہے ...
سبھی ہیں جھوٹھے تو سچ میں ہی بول کر دیکھوں ...
رستہ لمبا ہو تو پیادہ مت کرنا ...
رات سردی خوف جنگل اور میں ...
ملنے والو رشتوں میں کیوں آتے ہو ...
میری بنیاد کو تعمیر سے پہچانا جائے ...
میری آنکھوں میں کرچیاں رکھ دے ...
کوئی بھی رسم ہو سر پر نہیں اٹھاتے ہم ...
کسی کو اپنا بنا لو کسی کے ہو جاؤ ...
خود کو اتنا بھی مت بچایا کر ...
جو رنجشیں تھیں انہیں برقرار رہنے دیا ...
جو لڑکھڑائیں تو خود کو سہارا کرتے ہیں ...
جہاں ہے چھت مری در بھی وہیں نکالتا ہوں ...
ہوائے شام سے دیوار میں شگاف آیا ...
ہاتھ پکڑ کر اندر تک لے جاتے ہیں ...
اک ذرا سا بگاڑ ہونے سے ...
دنوں کو جوڑو مہینوں کو سال کرتے رہو ...
چراغ بن کے ہواؤں کی میزبانی کی ...