مدت ہوئی شعروں کے سوا کچھ نہیں کہتا ...
میں بتا بتا کے بھی تھک گیا میں بھلا نہیں ...
کیے ہیں راستے ہموار جانے والوں کے ...
کسی صبح کا تھا منظر سبھی کام جا رہے تھے ...
کسی کے دکھ کو ضرورت تھی پردہ پوشی کی ...
کانچ آنکھوں میں چبھونا تو نہیں بنتا ہے ...
کام آ کر بھی تو ہر شخص کے تنہا ہونا ...
جھوٹ کہتے ہیں کہ آواز لگا سکتا ہے ...
ہمیں شغف ہے ہمیشہ سے نفسیات کے ساتھ ...
ہے سنانا انہیں بے کار کسی اور کا دکھ ...
دلوں سے خوف نکالا گیا تھا بچپن میں ...
دل میں الٹا سیدھا چلتا رہتا ہے ...
چوم کر تم اگر جبیں جاتے ...
چھپاتے رہتے ہیں دکھ درد رو نہیں پاتے ...
بچھڑنا یار سے آسان بھی نہیں ہوتا ...
بھرے مکان میں روتے ہوئے اکیلا تھا ...
بے جا تکلفات میں کچھ بھی نہیں بچا ...
بس یہی سوچ کے خوش باش رہا جانے لگا ...
بہت سندر غضب اچھا لگے گا ...
عجیب چال کوئی تیر چل گئے اپنے ...