ہوا سے رشتہ مرا استوار ہوتے ہوئے ...
ہر طرف گھنگھور تاریکی تھی راہ جسم میں ...
ہر ایک پہلوئے خوش منظری بکھرتا رہا ...
ہمیں تو نشۂ ہجراں نڈھال چھوڑ گیا ...
گاہے گاہے میں تجھے یاد بھی کر سکتا ہوں ...
دن کے ہنگاموں میں دنیا تھی تماشائی مری ...
بچھڑ کے تجھ سے جو ہم جان سے جدا ہوئے ہیں ...
بھرا ہوا ہوں میں پورے وجود سے اپنے ...
بڑی فرصتیں ہیں کہیں گزر نہیں کر رہا ...
بدن تھا سویا ہوا روح جاگتی ہوئی تھی ...
بدن کے سارے جزیرے شمار کرتے ہوئے ...
بدن بناتے ہیں تھوڑی سی جاں بناتے ہیں ...
بڑا مزہ ہو جو یہ معجزہ بھی ہو جائے ...
زرد ہونے سے ہرا ہونے سے کیا ہونا ہے ...
یہ زندگی اب اور نہیں چاہیے مجھے ...
تجھے تلاش کسی کمسن و حسین کی بس ...
ٹھیک ہے دل پہ ترے درد کا دھاوا بھی ہے ...
شعار درد کو غم کو اصول کر بھی لیا ...
سب سمجھتے ہیں کہ فنکار نشے میں دھت ہے ...
مجھے سنبھالنے سے پیشتر وہ میرا تھا ...