ہوا مجھ سے جدا دل اوس پہ کیا گزری خدا جانے کہ ہو جیتا رہا یا مر گیا ہے کوئی کیا جانے قرار اوس گل میں اور میرے میں کیا ہے کوئی کیا جانے کہ بو اس بات کی میں جانو یا باد صبا جانے میرا کھویا ہوا دل زلف سے میں آج شب پوچھا تو بل کھا کر مجھے کہنے لگا میری بلا جانے ازل سے تا ابد آغاز و انجام اس گلستاں کا نہ کوئی ابتدا جانے نہ کوئی انتہا جانے سمجھنا کام نیں پروانہؔ ان بے درد لوگوں کا ہمارے سوز کی باتوں کو کوئی دل جلا جانے