تمہارے گریۂ غم کی کچھ انتہا بھی ہے اے انکھڑیو کوئی لخت جگر رہا بھی ہے جھڑی ہے اشک کی آ بیٹھ چشم میں میری کہ سیر آب ہے کشتی ہے اور گھٹا بھی ہے لہو کے گھونٹ میں پیتا ہوں تجھ بنا ساقی ہے ابر اشک کا اور آہ کی ہوا بھی ہے میں اس کا رنگ نکالوں گا اشک خونیں سے لگی ہیں آنکھیں ترے پاؤں پر حنا بھی ہے ایک اہل دردستی جا کے عشق نے پوچھا کہ غم جو کھاتے ہیں لوگ اس میں کچھ مزا بھی ہے کہا کہ ذائقہٕ غم ہے شہد سے شیریں پر اس کو لذت غم کا جو آشنا بھی ہے