وہ سرخ لب غضب سے گر آوے سخن کے بیچ کیا نقش بیٹھے واہ عقیق یمن کے بیچ قاتل لہو سے غسل تو دے کر لپیٹیو ہم بسملوں کی نعش گلابی کفن کے بیچ روشن نہ کیجو شمع کو زنہار دیکھنا پروانہ ساں جلوں گا ابھی انجمن کے بیچ افسرؔ دل و جگر کہیں جل جل نہ جائیں ہائے بے طرح شعلے آہوں کے بھڑکے ہیں تن کے بیچ