یہ کیا کہ سارے دیے رات بھر جلا نہ کریں ...
یہ کیا کم ہے کہ کچھ تو کام کرتے جا رہے ہیں ...
وہ کہ ذروں کی طرح مجھ میں سمٹ کر پھیلا ...
اس کو بھی کسی روز مرا دھیان رہے گا ...
اس کی محفل سے پرے بیٹھے ہیں ...
اس کے جیسا بننا ہے
اسے خبر بھی نہیں گرد ماہ و سال ہوں میں ...
اس کا چہرہ ہے کہ بھولا ہوا منظر جیسے ...
تجھے بھلانے پہ با اختیار ہو گیا ہے ...
ترے خیال نے پہلے ستارہ یاب کیا ...
سوکھے ہوئے ہونٹوں کو بھگونے میں لگا ہوں ...
شب وصال کے سارے ستارے ڈوب گئے ...
شب تاریک میں روشن سا اک چہرہ پکڑ لے گا ...
ساری دنیا کو بھلانے لگ جائیں ...
سب لوگ اپنے آئنوں کے ساتھ تھے وہاں ...
رات آنکھوں کے دریچوں میں سجا دی گئی ہے ...
پھیلی ہوئی ہے رات چمٹ جانا چاہیے ...
میری آنکھوں میں وہ آیا مجھ کو تر کرنے لگا ...
مرے سفر کی شروعات ہونے والی ہے ...
مرے قریب نہ آ حوصلہ بڑھا نہ مرا ...