خدا نے تو صبر آزمایا مرا ...
خدا کے اس قدر نزدیک جانا پڑ رہا ہے ...
خیال سا ہے کہ تو سامنے کھڑا تھا ابھی ...
ختم خود پر سفر کیا ہم نے ...
خموشی میں گزارہ کر رہا ہوں ...
کٹے گی کیسے ہماری وہاں پہ جائے بغیر ...
کہتا ہے کار عشق میں مر جانا چاہئے ...
کہاں ہم میں جھگڑا ہوا تھا کوئی ...
کبھی جو ہم ذرا بہت سنبھل گئے ...
کام نمٹا کے ہم تو سو گئے ہیں ...
جو اگلا پاؤں دھرنے کے لیے تھی ...
جسم بچہ ہے جانے بھر کا ...
جاؤں پھر اس کو منانے کے لئے ...
جشن تجھے ٹھکرا کر ہو گا ...
جب ساحل کا دھوکا ساحل ہو جاتا ہے ...
جب نکلے رائے شماری کو ...
جب مجھے کام کا بتایا گیا ...
جب کبھی زخم شناسائی کے بھر جاتے ہیں ...
جانے سولی پہ ہم چڑھائے گئے ...
جانے کن بے وفاؤں کا چرچا کیا ...