بدن چراغ نہیں ہیں محبتیں اپنی ...
بدن بدن کی ضرورت سے مار ڈالا گیا ...
اپنی خاطر اے خدا یے کام کر ...
اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کر دے ...
اپنی آغوش فراغت میں پڑا رہتا ہوں ...
اپنے تیور سے جو کر دیتا ہے سب کو لا کلام ...
اب نیا عشق ہے اس کا مری تنہائی سے ...
آٹھوں پہر کا یہ ترا مزدور آ گیا ...
آپ اپنی موت مر جانے دیا ...
آنکھوں کو آنسوؤں کی ضرورت ہے آج بھی ...
آگ اور خوں کے کھیل سے اب تک بھرا نہ جی ...
یہ کرتب کر دکھانا چاہتا ہوں ...
سکون زیست بھی کھونا کوئی مذاق نہیں ...
سپنے گئے سکون بھی الفت چلی گئی ...
نہ تھی ہرگز مری پرواہ دل کو ...
نہ جانے اس کے کتنے ہی سہارے ساتھ رہتے ہیں ...
محفل تمام رات ہی یوں تو سجی رہی ...
جو نیک راہوں سے ہم بھی گزر گئے ہوتے ...
جتنا بھیتر سے چھٹپٹاتا ہوں ...
جیتے رہنا بھی سزا ہو جیسے ...