میں ہُوں ذرّہ تُو اگر آفتاب اپنے لیئےتیرے سپنے ہیں، مِرے ٹُوٹے سے خواب اپنے لیئے میں نے سوچا ہے کِسی روز چمن کو جا کرچُن کے لاؤں گا کوئی تازہ گُلاب اپنے لیئےجِن کی تعبِیر نہِیں خواب وہ دیکھے میں نےشب گُزشتہ ہی تو سُلگائے وہ خواب اپنے لیئےتِیس پاروں کے تقدُّس کی قسم کھاتا ہوںنُور کا دھارا ہے یہ پاکِیزہ کتاب اپنے لیئےوقت کی دُھوپ کو چھاؤں میں بدل لیتے ہیںمیں ہوں خیمہ تو مِرے دوست تناب اپنے لیئےمیں نے پُوچھا تو فقط اُس نے خموشی اوڑھیتو یہ مثبت ہے کہ ہے منفی جواب اپنے لیئے؟کیوں بھلا کچّے گھڑوں پہ بھی بھروسہ رکھیںچھوڑ دے راستہ، دریائے چنابؔ! اپنے لیئےبہتے دریاؔ پہ روانی ہے، ابھی زندہ ہیںلے ہی لیجے گا کوئی توشہ جناب اپنے لیئےلوگ، لوگوں کا لہو پِیتے ہیں تو کُچھ بھی نہِیںاور ہوتی ہے حرام صِرف شراب اپنے لیئےمیں اُٹھاتا ہوں ابھی اپنے گُناہوں کا بوجھ تُو نے تو چُن کے کتابوں سے ثواب اپنے لِیئےمُجھ کو تسلیم حویلی ہے تِرے پاس بھلے ہو گی جنابماورا محل سے ہے جھونپڑا، صاب اپنے لیئےہم بھی اک روز ترقّی کی ڈگر پر ہوں گےبات یہ گویا ہے صحرا کا سراب اپنے لیئےکوئی جانے سے کِسی کے نہِیں مرتا حسرتؔ صِرف یادیں ہی تو ہوتی ہیں عذاب اپنے لیئےرشید حسرتؔ