گیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا

گیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا
کسی کا غم بھی کہاں دیر تک سنبھالا گیا

سلیقہ اس میں مجھے اک ذرا دِکھے تو سہی
کہا جو کام ہمیشہ وہ کل پہ ٹالا گیا

قُصور ہو گا تُمہارا بھی کچھ نہ کچھ گُڑیا
سبب تو ہے جو تمہیں گھر سے یوں نکالا گیا

پجاری مال کے ایسے کہ جیسے مالا ہو
جہاں بھی چاند گیا ساتھ اُس کا ہالہ گیا

کہا تھا میں نے کہ گھر سے اتار لو جالا
مکاں میں اب ہے اندھیرا وہ سب اجالا گیا

تڑپ، جدائی، محبت، جمال، زیبائی
نجانے کون سے سانچوں میں دل کو ڈھالا گیا

رشیدؔ کاہے کی یہ پنجہ آزمائی ہے؟
کبھی سنگھار سے دیکھا کہ رنگ کالا گیا؟

رشید حسرتؔ۔


تمام عُمر جِسے میں نے اعتبار دیا

تمام عُمر جِسے میں نے اعتبار دیا
دغا سے تُم نے بیک لخت اُس کو مار دیا

وفائیں دی ہیں اُسے میں نے عُمر بھر لیکِن
صِلے میں اُس نے فقط مُجھ کو اِنتظار دیا

مُجھے قرِیب رکھو یا کہ تُم رکھو دُوری
تُمہاری چاہ پہ ہے، تُم کو اختیار دیا

یہ اُس کا خاص کرم ہے، عطا ہے مولا کی
دیا شعُور مُجھے اور اِفتخار دیا

نہِیں ہُوں تابع اگر ماں کے، میری بِیوی نے
عجیب زہر مِرے ذہن میں اُتار دیا

یہ وسوسہ ہے کہ یہ خواب یا حقِیقت ہے
امیرِ شہر نے لوگوں کو روز گار دیا

مِرے وجود میں بستا تھا اِک رشِید حسرتؔ
سو ایک عرصہ ہُؤا میں نے اُس کو مار دیا

رشِید حسرتؔ

ووٹ پھر نہ دینا تم۔

ووٹ پھر نہ دینا تم۔

بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ
یہ حکُومت ہے یا بلا ہے یہ

بُھوک سے لوگ مر رہے ہیں یہاں
اور خوابوں میں مُبتلا ہے یہ

بُھول ہم سے ہُوئی جو اِس کو چُنا
لوگو بُھگتو جو کی خطا ہے یہ

جان و عِزّت یہاں نہِیں محفُوظ
امن کی کیسی فاختہ ہے یہ

ہم نے دیکھا بدلتا پاکستان
کیا محبّت تھی، کیا صِلہ ہے یہ؟؟

پہلے کرتا تھا چوک میں ناٹک
اب تو رُسوا بھی جابجا ہے یہ

حق یتامہ کا مار کھاتا ہے
خُوش لِباسی میں بھی گدا ہے یہ

عہد باندھا تھا، عہد شِکنی کی
ہو کے رُسوا مرے دُعا ہے یہ

ووٹ حسرتؔ کبھی نہِیں دینا
اب تو اعلان برملہ ہے یہ

رشِید حسرتؔ

بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ


بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ
یہ حکُومت ہے یا بلا ہے یہ

بُھوک سے لوگ مر رہے ہیں یہاں
اور خوابوں میں مُبتلا ہے یہ

بُھول ہم سے ہُوئی جو اِس کو چُنا
لوگو بُھگتو جو کی خطا ہے یہ

جان و عِزّت یہاں نہِیں محفُوظ
امن کی کیسی ساختہ ہے یہ

ہم نے دیکھا بدلتا پاکستان
کیا محبّت تھی، کیا صِلہ ہے یہ؟؟

پہلے کرتا تھا چوک میں ناٹک
اب تو رُسوا بھی جابجا ہے یہ

حق یتامہ کا مار کھاتا ہے
خُوش لِباسی میں بھی گدا ہے یہ

عہد باندھا تھا عہد شِکنی کی
ہو کے رُسوا مرے دُعا ہے یہ

ووٹ حسرتؔ کبھی نہِیں دینا
اب تو اعلان برملہ ہے یہ

رشِید حسرتؔ

بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی

بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی
تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی

حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری
گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی

مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا
کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی

تُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہا
اگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھی

تُمہارے ہِجر کے موسم میں، کیا کہُوں حالت
کبھی اُجاڑ، کبھی تو سِنگھار جیسی تھی

رہی ہے گِرد مِرے حلقہ اپنا تنگ کِیئے
حیات جیسے کِسی اِک حِصار جیسی تھی

وہ رات جِس سے میں شب بھر لِپٹ کے روتا رہا
رشِیدؔ شب تھی مگر غمگُسار جیسی تھی

رشِید حسرتؔ

عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟

عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟
ہر ایک چہرے سے ظاہِر ملال ہے کہ نہِیں؟

تمام چِیزوں کی قِیمت بڑھائی جاتی رہی
غرِیب مارنے کی اِس میں چال ہے کہ نہِیں؟

پہُنچ سے پہلے ہی باہر تھا عیش کا ساماں
فلک کے پاس ابھی آٹا، دال ہے کہ نہِیں؟

جو برق مہِنگی بتاتا بِلوں کو پھاڑتا تھا
کُچھ اپنے عہد میں اِس کا خیال ہے کہ نہِیں؟

ہمارے جِسم سے نوچا ہے گوشت، خُوں چُوسا
ابھی یہ دیکھنے آیا ہے کھال ہے کہ نہِیں؟

وہ جِس کے عہد میں ماں باپ بیچ دیں بچّے
تُمہیں کہو کہ یہ وجہِ وبال ہے کہ نہِیں؟

ٹھٹھر کے سرد عِلاقوں میں مر رہے ہیں لوگ
زُباں سے پُھوٹو تُمہیں کُچھ مجال ہے کہ نہِیں؟

کِیا تھا عہد بحالی کا، چِھین لی روٹی
غرِیب کے لِیئے جِینا مُحال ہے کہ نہِیں؟

نمُونہ سامنے رکھتے ہیں ہم خلِیفوں کا
تُمہارے سامنے کوئی مِثال ہے کہ نہِیں؟

دِکھائے باغ ہرے ہم غرِیب لوگوں کو
عوام پہلے سے مخدُوش حال ہے کہ نہِیں؟

امیرِ شہر نے آنکھیں رکھی ہیں بند رشِیدؔ
وگرنہ چہرہ طمانچوں سے لال ہے کہ نہِیں؟

رشِید حسرتؔ

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close