اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گاپاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گامیں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگیاب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گاکل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نےسب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گامیں بڑا مُجرم ہُوں مُجھ کو ضابطوں کا ہے خیال ہتھکڑی اِک سنتری پہنائے گا، لے جائے گامیری چِیزوں میں سے اُس کو جو پسند آیا کبھیچِھین لے گا چِیز پِھر مُسکائے گا، لے جائے گاشاعری رکھ دی ہے میں نے کم نظر لوگوں کے بِیچدوستو وہ مِہرباں بھی آئے گا، لے جائے گااپنی بِیوی کے بِنا کِس کا گُزارا ہے یہاںدیکھنا، داماد جی پچھتائے گا، لے جائے گاسر میں چاندی تار لے کر ایک لڑکی نے کہاکیا کوئی اب بھی مُجھے اپنائے گا، لے جائے گا؟؟دیکھنا کُوڑے میں سڑتا باسی کھانا بھی رشِیدؔننھا سا مجبُور بچّہ کھائے گا، لے جائے گارشِید حسرتؔ