غزل

غزل
نئی کہانی، نیا فسانہ، نئے ہی لوگوں میں آنا جانا
کہاں سے سِیکھا مِرے سِتمگر کِسی کا دل یُوں دُکھانا۔ جانا

تُجھے ہے جانا جو روند کر یُوں محبتّوں کو تو شوق سے جا
مِری عقِیدت میں کیا کمی تھی سبب خُدارا بتانا۔ جانا

یہ کِس نے تُجھ سے کہا کہ تُجھ سے بِچھڑ کے جِیون خزاؤں جیسا
تِرے ہی غم کی بہار کو ہی تو دوست میں نے خزانہ جانا

مجھے محبّت کی چار دن کی کہانی پہلے ہی کُھل چُکی تھی
اِِسی لیئے اپنی زِندگی میں تو تیرے آنے کو جانا جانا

بجا کہ تُجھ کو عقِیدتوں کےنئے خزانے مِلا کریں گے
ملال ہو گا سماں بہاروں کا چھوڑ کر تُو سہانا جا۔نا

مُجھے ہے ناموس و نامِ آبا کی پاسداری مِرے رفِیقو
مِرے لِیئے ہے بڑا ہی اعزاز اُن کے ناموں سے جانا جانا

رشِیدؔ کیسی یہ اُلجھنیں ہیں، نجانے کیا روگ پالتا ہے
جو جان تُجھ پر چِھڑک رہے ہیں، کہیں سِتم اُن پہ ڈھا نہ جانا

رشِید حسرتؔ

غزل

غزل

دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں
بس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میں

چہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از بر
پڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میں

ماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو
(غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میں

کہنے کو تِرا شہر بہُت روشن و تاباں
ہر چہرہ مگر اِس میں بُجھا دیکھتا ہوں میں

گُلشن میں خزاں رُت ہے سمن پِیلے پڑے ہیں
جاتے ہی تِرے زِیست سے، کیا دیکھتا ہوں میں

اُس پار گیا جو بھی نہیں لوٹ کے آیا
کیا بھید چُھپا اِس میں سو جا دیکھتا ہوں میں

وہ جِس کے بنا زِیست مِری آدھی ادھوری
رُخ کیسے بدلتا ہے، ادا دیکھتا ہوں میں

اے دوست نہ بہلا کہ ہوئی بِیچ میں حائل
کم ہو نہ کبھی جو، وہ خلا دیکھتا ہوں میں

ویران مِرے دل کا نگر جِس نے بتایا
جُھوٹا ہے، رشیدؔ اِس کو سجا دیکھتا ہوں میں

رشید حسرتؔ

ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے


ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے
کیوں میں نے کیا، کر نہ سکا وہ ہی اگر طے

جو مسئلہ تھا اُن کا بہت اُلجھا ہؤا تھا
کُچھ حِکمت و دانِش سے کِیا میں نے مگر طے

ہو جذبہ و ہِمّت تو کٹِھن کُچھ بھی نہِیں ہے
ہو جائے گا اے دوستو دُشوار سفر طے

کِس طرز کا اِنساں ہے، نسب کیسا ہے اُس کا
بس ایک مُلاقات میں ہوتا ہے اثر طے

ہے کیسا نِظام اِس میں فقط جُھوٹ بِکے ہے
مُنہ حق سے نہِیں موڑوں گا کٹ جائے گا سر طے

اِک بار کی مِحنت تو اکارت ہی گئی ہے
سو کرنا پڑا مُجھ کو سفر بارِ دِگر طے

سمجھا نہ کسیؔ نے جو مِرے طرزِ بیاں کو
بیکار گیا پِھر تو مِرا شعر و ہُنر طے

ہے عزم، سفر میں جو پرِندوں کا مُعاون
یہ کِس نے کہا کرتے ہیں یہ بازو و پر طے

کِس کِس نے میرے ساتھ وفا کی یا خفا کی
کر لے گا رشیدؔ آج مِرا دامنِ تر طے


رشید حسرتؔ

کچھ نہیں تعلّق پر، میرا نام گُوگل پر لکھ کے سرچ کِ

کچھ نہیں تعلّق پر، میرا نام گُوگل پر لکھ کے سرچ کِیجے گا
شعر ہیں مِرے پِھیکے پِھر بھی ہے توقع سِی
کُھل کے داد دِیجئے گا

بات کیا قبا کی ہو، اے مِرے رفُوگر دیکھ، دل بھی اب دریدہ ہے
کام کر توجہ سے، چھید نا رہے باقی سارے چاک سِیجے گا

چاہتے ہو گر یارو لُطف ماورا آئے، آبِ آتشیں سے، تو
اشک مُ الخبائث میں اے مِرے رفیقو بس اب ملا کے پِِیجے گا

آپ ہیں دُکھی تو ہوں، مُجھ سے کیا بھلا مطلب آپ کو پتہ تو ہے
آپ کے دُکھوں پہ ہی مُجھ سے پتھر دِل کا دِل کِس لیئے پسِیجے گا؟

ڈوبنے کو ہے لوگو میرے پیار کی ناؤ، بوجھ کیسے ہلکا ہو
قرض ہے محبت کا، اور جس کا جتنا ہے آ کے مجھ سے لیجئے گا

آنکھ بھی دِکھائیں گے، دھونس دھمکی بھی دیں گے کیونکہ یہ کمینے ہیں
گھاگ ہیں سیاسی لوگ، اے مِرے قلمکارو اِن سے مٹ دبِیجے گا

بے رِدا کیا اِس کو، اُس کا گھر جلا ڈالا کون آپ سے پُوچھے
ان غریب لوگوں کا اے رشیدؔ ان داتا آپ ہی کہِیجے گا۔

رشِید حسرتؔ۔

 یادوں کا سنسار۔

یادوں کا سنسار۔


زباں کا مُنہ میں اِک ٹکڑا سا جو بیکار رکھا ہے
یہ میرا ظرف ہے لب پر نہ کُچھ اِظہار رکھا ہے

مِرے اپنوں نے ہی مُجھ کو حقارت سے ہے ٹُھکرایا
کہوں کیا دِل میں شِکووں کا بس اِک انبار رکھا ہے

یہ سوچا تھا محل سپنوں کا ہی تعمِیر کر لیں گے
مگر تُم نے ہمیشہ کو روا انکار رکھا ہے

چلو تسلیم کر لیتے ہیں، تُم نے جو کِیا اچّھا
کہاں اُجڑی ہوئی یادوں کا وہ سنسار رکھا ہے۔

مُبارک ھو تُمہیں اِک ھمسفر کا ہم سفر ہونا
نئے ساتھی کا اب کے نام کیا 'سرکار" رکھا ہے۔

سدا مسرور رکھا ہے جسے شِیریں سُخنی سے
اُسی کے تلخ لہجوں نے مُجھے آزار رکھا ہے 

اگرچہ فاصلے ہیں بِیچ میں حائل مگر حسرتؔ
تُمہاری یاد سے دِل کو گُل و گُلزار رکھا ہے۔



رشید حسرتؔ۔





















میں ہُوں ذرّہ تُو اگر آفتاب اپنے لیئے


میں ہُوں ذرّہ تُو اگر آفتاب اپنے لیئے
تیرے سپنے ہیں، مِرے ٹُوٹے سے خواب اپنے لیئے

میں نے سوچا ہے کِسی روز چمن کو جا کر
چُن کے لاؤں گا کوئی تازہ گُلاب اپنے لیئے

جِن کی تعبِیر نہِیں خواب وہ دیکھے میں نے
شب گُزشتہ ہی تو سُلگائے وہ خواب اپنے لیئے

تِیس پاروں کے تقدُّس کی قسم کھاتا ہوں
نُور کا دھارا ہے یہ پاکِیزہ کتاب اپنے لیئے

وقت کی دُھوپ کو چھاؤں میں بدل لیتے ہیں
میں ہوں خیمہ تو مِرے دوست تناب اپنے لیئے

میں نے پُوچھا تو فقط اُس نے خموشی اوڑھی
تو یہ مثبت ہے کہ ہے منفی جواب اپنے لیئے؟

کیوں بھلا کچّے گھڑوں پہ بھی بھروسہ رکھیں
چھوڑ دے راستہ، دریائے چنابؔ! اپنے لیئے

بہتے دریاؔ پہ روانی ہے، ابھی زندہ ہیں
لے ہی لیجے گا کوئی توشہ جناب اپنے لیئے

لوگ، لوگوں کا لہو پِیتے ہیں تو کُچھ بھی نہِیں
اور ہوتی ہے حرام صِرف شراب اپنے لیئے

میں اُٹھاتا ہوں ابھی اپنے گُناہوں کا بوجھ
تُو نے تو چُن کے کتابوں سے ثواب اپنے لِیئے

مُجھ کو تسلیم حویلی ہے تِرے پاس بھلے ہو گی جناب
ماورا محل سے ہے جھونپڑا، صاب اپنے لیئے

ہم بھی اک روز ترقّی کی ڈگر پر ہوں گے
بات یہ گویا ہے صحرا کا سراب اپنے لیئے

کوئی جانے سے کِسی کے نہِیں مرتا حسرتؔ
صِرف یادیں ہی تو ہوتی ہیں عذاب اپنے لیئے

رشید حسرتؔ

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close