یار کا کردار آئینہ نبھا سکتا نہیں ...
یقیں خود پہ اتنا بڑی بات ہے ...
یہاں دماغ کہاں میں چلانے آتا ہوں ...
وہ نگاہیں جو ہزاروں کی سنا کرتی تھیں ...
وہ دن بھی کیسا ستم مجھ پہ ڈھا کے جائے گا ...
وہ بھی ماہر تھا بہت بات کو الجھانے میں ...
وار پر وار کر رہا ہوں میں ...
اسے بھی کوئی مشغلہ چاہیے تھا ...
اس دھوکے نے توڑ دیا ہے اتنا مجھ کو ...
تجھ سے وابستہ شاعری کے بغیر ...
تھکن اوروں پہ حاوی ہے مری ...
تری طرف سے تو ہاں مان کر ہی چلنا ہے ...
ترے غم سے ابھرنا چاہتا ہوں ...
تبھی تو بھیڑ بے شمار ہے یہاں ...
صبح کریں گے ہشیاری سے ...
صرف گھٹن کم کر جاتے ہیں ...
شکوہ اک الزام ہو شاید ...
شاید مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا ...
شکل بدلی اور اندر آ گیا ...
سارا گھر ایک لے میں روتا ہے ...