غم عزیز کوئی تو کنالؔ ہوگا مجھے ...
دل کے احساس میں بھی جان تو ہو سکتی ہے ...
بک گئے ہیں جو یہاں تھوڑی سی رشوت کے لیے ...
شب غربت میں جو خوشبوئے وطن پاس آئی ...
رہوں خموش تو جاں لب پہ آئی جاتی ہے ...
دل کی خلوت سے زباں تک کا سفر کس نے کیا ...
عافیت کہتی ہے پھر ایک ستم گر کو بلائیں ...
تیرا حسن و جمال لکھتا ہوں ...
رہی میری شاید دعا نصف سے کم ...
ماضی کے خیالات سے رشتہ نہیں میرا ...
میں شاید کھیلنے کھانے لگا ہوں ...
میکدہ ہے خمار ہے تھوڑا ...
جب کلی پر شباب آتا ہے ...
ہواؤں کو میں پڑھنا سیکھ لوں گا ...
ایک اونچے مکاں کی باتیں ہیں ...
ایک ٹوٹی کمان رکھتا ہوں ...
بے خودی کی مثال ہوں شاید ...
ایک بار اپنا بنا کر جو مجھے چھوڑ گئی ...
میرے گھر کی یہ دیواریں جیسے پی کر بیٹھی ہیں ...
یہ سنسان راتیں یہ ٹھنڈی ہوائیں یہ پھیلی ہوئی تیری یادوں کی خوشبو ...