اس کی خواہش ہے کہ جلدی بھول جانا چاہیے ...
تو مری کھوئی نشانی کے سوا کچھ بھی نہیں ...
تو اپنے وصل کے وعدے سے جب مکرنے لگا ...
سلوک ناروا کا اس لئے شکوہ نہیں کرتا ...
صبح آتا ہوں یہاں اور شام ہو جانے کے بعد ...
سبھی کھڑے تھے شریک زمانہ ہوتے ہوئے ...
رہنا نہیں اگرچہ گوارہ زمین پر ...
رات آتی رہتی ہے دن نکلتا رہتا ہے ...
قربتوں میں کوئی راحت نہ کسی دوری میں ...
پہلے پہل گھر سے نکلے ہو دھیان رہے ...
پہلے تو خاکدان بنانے کا دکھ ہوا ...
نشہ کچھ ایسا تھا کہ سمجھ میں نہ آئی بات ...
نشے کی لہر طاری ہو رہی ہے ...
نئے جہان کا در باز کرنے والی ہے ...
مجھ کو وہ بھی بسا غنیمت تھا ...
مدتوں بعد شب ماہ اسے دیکھا تھا ...
کیاری کیاری خالی ہے ...
کچھ نہیں تیرے میرے میں ...
کوئی موضوع ہو تیرا حوالہ اچھا لگتا ہے ...
کوئی بھی شکل ہو یا نام کوئی یاد نہ تھا ...