اک ندی موج در موج پہلو بدلتی رہی ...
دنیا میں وہی کچھ ہے مری کارگزاری ...
دل پژمردہ کو ہم رنگ ابر و باد کر دے گا ...
دھرتی بھی آسماں کے برابر خراب ہے ...
دوا کے نام سے حالت خراب ہوتی ہے ...
بسر یوں شب عمر کر جاؤں گا ...
برس برس سے مجھے انتظار تھا جس کا ...
اپنی آنکھیں ترے چہرے پہ لگا کر دیکھوں ...
عجب اندھیری رات کا نظارہ تھا ...
آج تو گھر میں کوئی نہیں ہے آج تو کھل کے رو لیں گے ...
عادت شب بے داری بڑھتی جاتی ہے ...
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں ...
راہ میں جو بھی رکاوٹ ہو ہٹا دینا ہے ...
اڑنے کی کوئی اچھی سزا دیجئے ہمیں ...
شعروں میں اپنا درد رقم کر نہیں سکے ...
سب کے گھر میں یہ چراغاں نہیں دیکھا جاتا ...
کبھی میرے لیے دو پل نکالو ...
اس تعلق کو نبھاؤ تو کوئی شعر کہوں ...
ان گرم آنسوؤں کی روانی میں ساتھ دے ...
ہمیں اب ہجر اس کا کھل رہا ہے کیا کیا جائے ...